ایک نیوز (فیکٹ چیکر) ماہرامراض جلد کاکہنا ہے کہ دھوپ سے بچانے والی کریموں کے کینسر کا باعث بننے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ۔
ماہرین کے مطابق سورج کی شعاعوں سے بچنے کے کئی موثر طریقے موجود ہیں اور سب سے کارآمد طریقہ ہے ان شعاعوں سے تحفظ فراہم کرنے والی کریموں کا استعمال لیکن اس کے باوجود کئی لوگوں کی جلد دھوپ کی تپش برداشت نہیں کر پاتی اور خراب ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب لوگ جلد پر اسپرے یا کریم کی صورت میں استعمال ہونے والے ان کیمیکلز کو لگانے پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔پہلا دعویٰ یہ ہے، ''سن اسکرین یا سورج کی شعاعوں سے تحفظ فراہم کرنے والی کریمیں سرطان کا باعث بنتی ہیں۔‘‘ ۔ یہ تھوڑا عجیب ہے کیونکہ سن اسکرین کا بنیادی کام ہی ہمیں جلد کے سرطان سے محفوظ رکھنا ہے۔
ماہرین کاکہنا تھا کہ منرل اور کیمیائی کریموں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ منرل سن اسکرین میں ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ یا زنک آکسائیڈ ہوتی ہے۔ یہ جلد پر ایک پرت بناتی ہے جو الٹرا وایلیٹ، یا یو وی ریز کو روکتی ہے اور انہیں جلد میں جذب نہیں ہونے دیتی۔ سن اسکرین لگانے کی وجہ سے، جو آپ کی جلد پر ایک سفید طے جمتی ہے، وہ بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ منرل سن اسکرین کینسر کا سبب بن سکتی ہے، اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
ماہرین کے مطابق بہت سے لوگ کیمیکل سن اسکرین استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ جلد میں جذب ہو جاتی ہے۔فوری جذب ہونے کی وجہ سے ایسی کریموں کو بار بار لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان میں ایسے کیمیائی مادے موجود ہوتے ہیں، جو آپ کی جلد میں جذب ہوکر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے کہ کیمیکل سن اسکرینز میں ایسے مادے ہوتے ہیں، جو انسانوں کے لیے خطرناک ہوں۔
ڈاکٹر یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہر سال نئی سن اسکرین خریدی جائے۔ تاہم کچھ سن اسکرینز میں مصنوعی یو وی فلٹر ایکٹیوکرائلین ہوتا ہے۔ 2021 میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ ایکٹیوکرائلین وقت کے ساتھ تبدیل ہو کر بنزوفینون بن جاتا ہے۔
ماہر امراض جلد یہ مشورہ دیتے ہیں کہ پرانی کیمیکل سن اسکرین استعمال نہ کریں۔
ماہرین امراضِ جلد کا کہناا ہے کہ کہ ہر رنگت کی جلد والے لوگوں کو دھوپ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ہاں انتہائی گورے لوگ دھوپ کی تپش سے جلدی متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم کوئی بھی دھوپ سے مکمل محفوظ نہیں ہے۔
گہرے رنگت والی جلد میں سورج سے تحفظ کا قدرتی عنصر موجود ہوتا ہے لیکن ایس پی ایف 30 کی ضرورت تقریباﹰ ہر رنگت کی جلد والے انسان کو ہوتی ہے۔