محمد عامر نے برطانوی شہریت کی درخواست دے دی، آئی پی ایل کھیلنے کی خواہش کا اظہار

محمد عامر نے برطانوی شہریت کی درخواست دے دی، آئی پی ایل کھیلنے کی خواہش کا اظہار

ایک نیوز:  کرکٹ  سے ریٹائر ہونے والے پاکستان کے سابق فاسٹ باز محمد عامر ایک بار پھر سرخیوں میں آگئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سابق فاسٹ باؤلر محمد عامر نے پاکستان سے برطانیہ کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، محمد عامر انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سے ہی انگلینڈ میں مقیم ہیں اور اب انہوں نے برطانوی شہریت کے لئے بھی درخواست دی ہے۔اس فیصلہ کے پیچھے کا ایک بڑا سبب انڈین پریمئیرلیگ میں شرکت کرنا بھی ہے۔پاکستان کے کرکٹرز کےلئے پچھلے کئی سال سے آئی پی ایل کے دروازے بند ہیں ۔

محمد عامر نے کہا ہے کہ وہ ابھی  6 سے 7 سال مزید کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ محمد عامر نے انگلینڈ کی شہریت کے لئے درخواست دی ہے اگر محمد عامر کو انگلینڈ کی شہریت مل جاتی ہے تو ان کے لئے کرکٹ کی بہت ساری راہیں کھل گئیں۔ محمد عامر نے انکشاف کیا ہے کہ وہ 2024 میں برطانیہ کےشہری بن جائے گا۔ محمد عامر نے کیا ہے کہ انگلینڈ کے لیے نہیں کھیلیں گے لیکن برطانوی پاسپورٹ کے تحت آئی پی ایل کھیلنے کیلئے دستیاب ہونگے۔

وہ انگلینڈ کی کاؤنٹی کرکٹ کے علاوہ دنیا کی سب سے بڑی کرکٹ لیگ آئی پی ایل میں بھی کھیلیں گے۔ محمد عامر ریٹائر ہوئے ہیں، وہ اپنے خاندان کےساتھ انگلینڈ میں رہ رہے ہیں اور انہوں نے ایک انٹرویو میں بھارتی کرکٹ کی بہت تعریف کی ہے۔ محمد عامر نے کہا کہ پاکستان میں نوجوان کھلاڑیوں کو بہت ہی کم تجربے کے ساتھ بین الاقوامی کرکٹ میں متعارف کرایا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں سلیکٹرز کو دوسری مضبوط ٹیموں سے کچھ سیکھنا چاہئے۔

ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے دنیائے کرکٹ میں کرکٹرز نے ایک ملک سے کرکٹ کھیلنے کے بعد کبھی دوسری ٹیم جوائن ہی نہیں کی۔ کیون پیٹرسن، ایون مورگن، ڈرک نینس، لیوک رونکی اور بہت سی دوسری مثالیں موجود ہیں لیکن ان کے پس منظر یکسر مختلف اور اخلاقی طور پر درست فیصلے تھے۔کیون پیٹرسن نے اس وقت انگلینڈ ٹیم جوائن کی جب جنوبی افریقن بورڈ نے واضح طور پر کیون پیٹرسن کو ٹیم میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایون مورگن نے انگلینڈ ٹیم کا راستہ اس لئے پکڑا کہ آئیر لینڈ کی ٹیم بہت کم انٹرنیشنل میچز کھیلتی تھی جس سے مورگن جیسے بڑے کھلاڑی کا کیریئر ضائع ہو رہا تھا۔ اگر فواد عالم اب کسی اور ملک کی شہریت حاصل کر لے تو اس پر اخلاقیات کا سوال ہرگز نہیں اٹھ سکتا مگر محمد عامر کا معاملہ دوسرا ہے۔