الیکشن کمیشن انتخابی نشان کا معاملہ، پیپلز پارٹی تیر پر الیکشن لڑے گی یا تلوار پر؟

Jul 03, 2023 | 16:03 PM

Hasan Moavia

ایک نیوز: پاکستان پیپلز پارٹی نے تلوار جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز نے تیر کے انتخابی نشان کے لئے بھی الیکشن کمیشن میں درخواست جمع کروا دی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید نیر حسین بخاری نےالیکشن کمیشن میں تلوار کے لئے درخواست جمع کروادی ہے۔پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید نیر حسین ںخاری نےالیکشن کمیشن میں درخواست جمع کروائی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز نے تیر کے نشان کے لئے بھی الیکشن کمیشن میں درخواست جمع کروا دی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے انتخابی نشان تیر کی درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی۔
تیر بھی اور تلوار بھی ،آخر کیوں؟
 بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کے بانی کا نام ذوالفقارعلی بھٹو تھا اور ذوالفقار چوتھے خلیفہ حضرت علی کی تلوار تھی لہذا 1970 میں  دستیاب نشانات میں مناسب نشان تلوار ہی تھا۔  پیپلز پارٹی جب بھی اپنے بینروں اور پوسٹروں پر تلوار کا نشان بناتے تھے تو اس پر یہ مصرع لکھتے تھے ’لافتی الا علی، لا سیف الا ذوالفقار‘ ۔


 تلوار کیسے غائب ہوئی ؟
پیپلز پارٹی نے سنہ 1970 اور 1977 کے انتخابات تلوار کے نشان پر ہی لڑے لیکن جب جنرل ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا کا نفاذ کیا اور سنہ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا تو انتحابی نشانات کی فہرست سے تلوار کا نشان ہی ہٹا دیا گیا۔
جنرل ضیا الحق کی 17 اگست 1988 کو فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ بینظیر بھٹو کی قیادت میں یہ پہلے انتخابات تھے جس میں پیپلز پارٹی نے تیر کے نشان پر انتخاب لڑا۔


تیر کی آمد 
سنہ 1988 کے انتخابات میں بھی انتخابی نشانات کی جو فہرست آئی اس میں تلوار شامل نہیں تھی جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اس سے ملتے جلتے تیر کے نشان کا انتخاب کیا۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا ترانہ ’دلاں تیر بجا دشمناں تئی‘ متعارف کرایا گیا تاکہ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ اب ہمارا نشان تلوار نہیں تیر ہے۔

https://www.pnntv.pk/digital_images/extra-large/2023-07-03/news-1688380787-5126.jpeg
 پی پی پی اور پی پی پی پی 
پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین سابق صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں موجود ہیں اور دونوں کے تنظیمی ڈھانچے الگ الگ ہیں۔سنہ 1999 میں نواز شریف کے دور حکومت میں بینظیر بھٹو کو جسٹس ملک محمد قیوم کی سربراہی میں احتساب عدالت نے نااہل قرار دیا جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کا قیام عمل میں لایا گیا۔
بینظیر بھٹو نے احتساب بیورو کے اس وقت کے سربراہ سیف الرحمان، جسٹس ملک محمد قیوم اور شہباز شریف کے درمیان بات چیت کی ٹیپس سپریم کورٹ میں پیش کیں جس کے بعد اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا۔
’یہ سزا سنائی جا چکی تھی کہ بینظیر بھٹو انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتیں، وہ پارٹی کی سربراہ تھیں اس لیے پارٹی کو بھی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تب پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے سربراہ مخدوم امین فہیم تھے۔ اس جماعت نے پھر تیر کا نشان حاصل کر کے انتخابات میں حصہ لیا، سزا کالعدم ہونے کے بعد بینظیر بھٹو بھی انتخابات میں شریک ہوئیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی پھر بھی بحال نہیں ہوئی۔
 تیر کا مالک کون اور تلوار کس کی 
بینظیر بھٹو نے تمام انتخابات تیر کے ہی اتنخابی نشان پر لڑے جبکہ بعد میں آصف علی زرداری کی قیادت میں بھی تیر کے نشان پر ہی ووٹ لیے گئے لیکن اب آصف زرداری کی سربراہی میں پارٹی کے پاس تیر جبکہ بلاول بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی کے پاس انتخابی نشان تلوار ہے۔


 پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہہ سنہ 2013 میں یہ خدشہ تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کو ہی کہیں کالعدم قرار نہ دے دیا جائے۔ خطرات اب بھی ہیں کہ الیکشن کمیشن یا جو کام کرنے والے ہیں ان کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی مقدمہ یا ایسی کوئی چیز آ جائے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پھر انتخابات سے دور رکھا جائے اس لیے پارٹی نے دونوں انتخابی نشانات اپنے پاس رکھے ہیں۔

مزیدخبریں