برطانوی سکھ فوجیوں کا بھارت، پاکستان پر کرتارپور راہداری کو ثقافتی مرکز بنانے پر زور

برطانوی سکھ فوجیوں کا بھارت، پاکستان پر کرتارپور راہداری کو ثقافتی مرکز بنانے پر زور
ایک نیوز نیوز:برطانوی سکھ فوجیوں کے 12 رکنی وفد نے رواں ہفتے پاکستان کے دورے کے دوران سکھ مذہب کے 2 مقدس ترین مقامات اور سکھ مذہبی رہنماؤں سے متعلق دیگر تاریخی مقامات کے تحفظ کے لیے میزبان ملک کی کاوشوں کو سراہا۔

سکھ مذہب کے 2 سب سے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ننکانہ صاحب ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کی پیدائش ہوئی تھی جبکہ سکھ مذہب کا دوسرا سب سے مقدس مقام کرتارپور ہے جہاں بابا گرونانک تبلیغ کے دوران انتقال کر گئے تھے، یہ دونوں مقامات پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع ہیں۔

اپنی نوعیت کے پہلے دورے کے دوران برطانوی سکھ فوجیوں کے وفد نے پاکستان میں سکھ مذہب کے تمام اہم مذہبی اور تاریخی مقامات کا دورہ کیا۔



برطانیہ کی فیلڈ آرمی کی ڈپٹی کمانڈر اور وفد کی سربراہ میجر جنرل سیلیا جے ہاروی نے ترک نیوز ایجنسی ’انادولو‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں وفد کے لیے اس حیرت انگیز دورے کے دوران سہولیات فراہم کرنے پر پاکستانی فوج کی مشکور ہوں، یہ دورہ وفد میں شامل بہت سے لوگوں کے لیے زندگی میں ایک بار آنے والا نادر و نایاب موقع ہو سکتا ہے۔‘

پاکستان نے 2019 میں بابا گرونانک کے 550ویں جنم دن کے موقع پر کرتارپور راہداری کھولی تھی۔

کرتارپور راہداری سرحد پار کرنے کے لیے ویزا فری سہولت فراہم کرنے والا جدید ترین راستہ ہے جو بھارت کی جانب سے آنے والے زائرین کو مقدس مقام میں داخلے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

اس موقع پر بھارتی سکھ برادری کو پیغام دیتے ہوئے میجر جنرل سیلیا جے ہاروی کا کہنا تھا کہ ’میں بھارتی سکھ برادری سے کہوں گی کہ وہ یہاں آئیں اور فراہم سہولیات کا جائزہ لیں، وہ یہاں رہ سکتے ہیں، کھانا کھا سکتے ہیں اور جتنی چاہیں عبادت کر سکتے ہیں، یہ دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ایک مثالی منصوبہ ہو سکتا ہے۔‘
سکھوں کے مذہبی مقامات کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں پر پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ دورہ اتنا حیرت انگیز ہو سکتا ہے، یہاں کرتارپور میں کھڑے ہو کر میں کہہ سکتی ہوں کہ یہاں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جیسا کہ میں نے سوچا تھا اور میں اس ملک کے لوگوں کی گرمجوشی اور دوستی کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔‘
بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی سرحد 425 کلومیٹر (264 میل) طویل ہے، دونوں اطراف کے پنجاب 1947 تک ایک صوبے کا حصہ تھے، یہ صوبہ بھارت کی آزادی اور پاکستان بننے کے وقت تقسیم ہوا تھا۔
1947 میں تقسیم ہونے کے باوجود پنجاب کے دونوں اطراف اب بھی ایک جیسی ثقافت اور بولے جانے والی زبانیں مشترک ہیں۔
ایک پرجوش موسیقار کارپورل چمندیپ سنگھ نے پنجاب کی ثقافت اور موسیقی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں کئی روز سے قیام پذیر ہیں اور اس دوران یہ جگہ گھر جیسی محسوس ہوتی ہے، یہاں ہمیں ایسا محسوس نہیں ہوتا جیسے ہم کسی غیر ملک میں ہیں، بھارت اور پاکستان کا پنجاب دونوں ایک جیسے ہیں، ہم نے بہت اچھا محسوس کیا جب بھی یہاں کے لوگ ہم سے پنجابی میں بات کرتے تھے۔
بھارت کی جانب سے کرتارپور راہداری کے ذریعے مقدس مقام تک آنے کے لیے بھارت کی وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر موجود ایک فارم بھرنا ہوتا ہے اور پھر تفصیلی تصدیق کے بعد اس کی منظوری میں 3 سے 14 روز کا وقت لگ سکتا ہے۔
کرتارپور راہداری کے چیف گوبند سنگھ کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت نے آنے والے زائرین کی گنجائش بڑھا کر یومیہ 5 ہزار افراد تک کردی ہے، لیکن بھارتی حکومت کی پابندیوں اور کلیئرنس کے طویل عمل کی وجہ سے لوگ آکر مذہبی مقامات کا دورہ نہیں کر پارہے ہیں، جبکہ یہاں ویزا فری سہولت موجود ہے، بھارتی حکومت کو سکھ برادری کے خلاف اس طرح کے حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔
اپنے دورے کے دوران سکھ فوجیوں نے ڈیفنس سکھ نیٹ ورک سے متعلق گائیڈ بک بھی بیش کی۔
ڈیفنس سکھ نیٹ ورک برطانوی وزارت دفاع میں سکھوں کی نمائندگی کرنے والی ایک سرکاری تنظیم ہے۔
پنجاب کا 4 روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد وفد نے اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن کا دورہ کیا، اس کے علاوہ سکھ مذہب کے دیگر مذہبی اور تاریخی مقامات کی بھی زیارت کی، ان مقامات میں گوردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب، گوردوارہ ڈیرہ صاحب کے علاوہ قلعہ لاہور، واہگہ بارڈر، سارہ گڑھی، قلعہ لاک ہارٹ اور خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے میں واقع سمانہ قلعہ شامل تھا۔
وفد نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کا بھی دورہ کیا اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور تاریخی دورے پر وفد کی گرمجوشی سے میزبانی کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

28 جون کو جاری کردہ ایک بیان میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات (آئی ایس پی آر) نے آرمی چیف کی وفد کے ساتھ گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے اور ملک میں مذہبی سیاحت کے فروغ کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔
بیان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا تھا کہ کرتارپور راہداری پاکستان کی مذہبی آزادی اور ہم آہنگی کے لیے غیر متزلزل عزم کا عملی اظہار ہے۔