ایک نیوز: قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس میں تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ کے کیس کو زیر بحث لایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس محمد شہزاد نےبریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مختار نامی شخص نے بچی کو جج کے گھر ملازمت پر رکھوایا ،چھ ماہ پہلے دس ہزار میں بچی کو ملازم رکھاگیا تھا۔معلوم ہوا بچی کو اکیلے گھر پر چھوڑ کر گلگت گئے تھے ،بچی کو جس گھر میں رکھا تھا وہاں لوگوں سے ملنا بہت کم تھا ۔ ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس محمد شہزاد نے کہا کہ کوشش ہے کیس میرٹ کے مطابق آگے بڑھے ملزمان کو سزا ملے۔
ڈی آئی جی آپریشنز کا کہنا تھا کہ یہ افسوسناک واقعہ ہے، اس واقعے کا علم میں میڈیا سے ہوا۔فیملی پانچ دن کے لئے گلگت گئی تو بچی کوگھر پر اکیلا چھوڑ گئی تھی، بچی کے ساتھ روائتی ذیادتی ہوتی رہی۔ہم نے ایف آئی درج کی اور واقعات کے حساب سے شقیں اضافہ کرتے رہے ہیں۔
مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ آپ اس کی میڈیکو لیگل پڑھ کر سنا دیں جس پر ڈی آئی جی آپریشن نے کہاکہ میں ابھی ایم ایل آر لے کر نہیں آیا ہوں۔شمس النساء نے سوال اٹھایا کہ میڈیکو لیگل کے بعد ایف ائی آر کیوں ویک تھیں؟کمیٹی اراکین نے کہا کہ آپ نےکہانیاں سنا دیں قانونی سطح پر کیا کیا کچھ نہیں بتایا۔
نوید جیوا کا اس موقع پر کہناتھا کہ حاضر سروس جج کے گھر یہ واقعہ ہوا ہے،اس معاملے کی جوڈیشل انکوائرئی کرائی جائے۔مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ اس کیس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا ۔