ایک نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی توشہ خانہ کیس کے قابل سماعت ہونے سے متعلق درخواست کی سماعت میں 3 بجے تک کا وقفہ کردیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں توشہ خانہ فوجداری کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف سمیت عمران خان کی تین درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیلوں پر سماعت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی کیس دوسری عدالت منتقلی اور ٹرائل پر حکم امتناعی جاری کرنے کی درخواست پر بھی سماعت ہوئی۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں ایک چیز آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں 31 جولائی کو 342 کا بیان ہوا۔ کل ہم نے گواہوں کی لسٹ عدالت میں جمع کرائی اور کہا 24 گھنٹے میں گواہ دستیاب نہیں ہوسکے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرانسفر درخواست پر جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک ٹرائل کورٹ حتمی فیصلہ نہیں دے سکتی۔ اس میں کیا جلدی ہے ایک دن بھی گواہ لانے کے لیے نہیں دیا گیا۔ ہم نے حق دفاع ختم کرنے کا کل کا آرڈر بھی آج چیلنج کیا ہے۔ ٹرائل کورٹ نے کہا آج گیارہ بجے دلائل دیں نہیں تو میں فیصلہ محفوظ کرلوں گا۔ اس سے جج کا تعصب ظاہر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی جج سے متعلق ایف آئی اے کی ایک رپورٹ بھی آئی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ جج کے فیس بک اکاؤنٹ سے وہ پوسٹ نہیں ہوئی۔ یکطرفہ رپورٹ کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ تو ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی ٹرانسفر درخواست جانبداری کی بنیاد پر ہے؟ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر جج جو کیس سن رہے ہیں وہ جانبداری ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ اس حوالے سے میں عدالت کے سامنے اپنی گزارشات رکھتا ہوں۔ عدالت ٹرائل کورٹ کو مزید کارروائی آگے بڑھانے سے روکے۔ ہائی کورٹ میں آج ہماری آٹھ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہیں۔ میرے حوالے سے ٹرائل کورٹ نے لکھا کہ انہوں نے سسٹم کو تباہ کر دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا سسٹم پرفیکٹ نہیں اس میں کچھ خامیاں ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ خامیاں ختم ہو سکیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم رولز میں یہ ڈال سکیں کہ ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر ہو۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ سب سے بڑا بوجھ اب اس عدالت کے اوپر ہے۔ ہائی کورٹ نے ہماری درخواستوں پر فیصلہ کرنا ہے۔ پہلی درخواست توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ہے۔ ہم عدالتوں میں انصاف کیلئے آتے ہیں۔ ہمارا مقصد کسی کو برا بھلا کہنا نہیں۔ آج ہم یہاں ہیں تو کیا ٹرائل کورٹ کے جج ہمارا قانونی حق ختم کرکے فیصلہ محفوظ کردیں گے؟ آپ نے ہماری زیر التوا درخواستوں کو سن کر فیصلہ کرنا ہے۔ ہماری کیس منتقل کرنے کی درخواست صرف تعصب کی بنیاد پر نہیں تھی۔ جج صاحب نے وکلاء اور میرے متعلق بھی عجیب ریمارکس دیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب اگر یہ سب ججز سے متعلق کہا جائے گا تو وہ جواب میں کچھ تو کہے گا نا۔ بار عدلیہ کی نرسری ہے، میں بھی وہیں سے یہاں آیا ہوں، ہمارا سسٹم پرفیکٹ نہیں ہے، اس میں خامیاں موجود ہیں، میری خواہش ہے کہ کیسز کے ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر چلائے جائیں، ملزم کو مگر فیئر ٹرائل ضرور ملنا چاہئے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ دوسری درخواست دائرہ اختیار سے متعلق ہے۔ ہم نے بتایا ہے کہ یہ معاملہ قانون کے مطابق مجسٹریٹ کے پاس جانا تھا۔ ہائیکورٹ نے ہماری کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف اپیل منظور کی۔ ہائیکورٹ نے اگر کیس ریمانڈ بیک کیا تھا تو کسی اور جج کو بھیجا جانا چاہئے تھا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کسی دوسرے جج کو آپکی درخواست دوبارہ سن کر فیصلہ کرنا چاہئے تھا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے کیس کو ایک دن وقفے کے بعد لگانے پر اتنا زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ وکلاء جا کر پریس کانفرنسز کریں تو اس سے کیا اثر پڑے گا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی کیسز سے متعلق ایک بحث صبح یہاں ہوتی ہے اور ایک شام کو ہوتی ہے، شام میں جو بحث ہوتی ہے اس کا یہاں ہونے والی بحث سے زیادہ اثر ہوتا ہے، شام کو ہونے والی بحث سے عوامی رائے بنتی ہے ان کے دیکھنے سننے والے زیادہ ہوتے ہیں، اس عدالت کی سماعت میں تو زیادہ سے زیادہ پچاس سے ستر لوگ موجود ہوں گے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اس حوالے سے پارلیمان کو سوچنا اور قانون بنانے چاہئیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا سے متعلق پیمرا کا کوڈ اینڈ کنڈکٹ موجود ہے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ زیرسماعت مقدمات پر تبصرہ نہیں ہوگا۔ میں الیکٹرانک میڈیا کی بات کر رہا ہوں کہ رات آٹھ سے بارہ بجے تک کیا چلتا ہے۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب آپ نے پچھلے سالوں میں کافی سیاسی کیسز کئے، آپ کو کبھی آٹھ بجے کسی چینل پر نہیں دیکھا، پرانے وقتوں میں تو کہتے تھے کہ ججز اخبارات بھی نہ پڑھیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جج کا یہ کام نہیں کہ وہ سوچے کہ فیصلے سے عوام کیا سوچے گی۔ ابھی یہ بتا رہے ہیں ٹرائل کورٹ نے بارہ بجے کا وقت دیا ہے۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہائی کورٹ کے سامنے دلائل دے رہے ہیں۔ آپ ہمارے گیسٹ ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرلیے۔
معاون خصوصی عطاء تارڑ اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کردیا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انہوں نے بیان حلفی کیساتھ کیس ٹرانسفر کرنے کی درخواست دی۔ کیا جج کو انصاف نہیں چاہیے؟ ایف آئی اے رپورٹ آپ کے سامنے پڑی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ ہو ہائیکورٹ یا ٹرائل کورٹ، جج کو بہت کچھ سننا پڑتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جج کو دل بڑا کرتے ہوئے ہمیشہ فائل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ فائل میں سب کچھ موجود ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ جج پر فیس بُک پوسٹوں کے الزام سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ آ گئی ہے، کیا رپورٹ کی بنیاد پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی؟ کیا چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کیا جانا چاہئے تھا؟ انہوں نے جج پر الزام لگانے سے پہلے فیس بُک پوسٹوں کا فرانزک کیوں نہیں کرایا؟ قانون کے مطابق جج پر ایسے الزامات کے ساتھ بیان حلفی لگایا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب بہت سنئیر وکیل ہیں۔ اس پر امجد پرویز نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب کی تعریف پر اب ہم جلنا شروع ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ میرے بھائی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا بہت پہلے ہم دونوں نے اکٹھے ایک ایف آئی ار کا متن لکھا تھا، میں خواجہ صاحب کے سنئیر ہونے کی وجہ سے تعریف کررہا ہوں۔
چیف جسٹس نے وکلاء کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کو بتا دیں کہ ہائیکورٹ میں دلائل جاری ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈویژن بنچ بھی ہے اور ایک اجلاس بھی بلایا ہوا ہے۔ تین بجے کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے۔