ایک نیوز: چیف جسٹس آف پاکستان نے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہے کہ افواج پاکستان کا کام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ فوج شہریوں پر بندوقیں تانے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی بینچ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
بیرسٹر اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گٸے۔ اپنے دلائل کے آغاز پر انہوں نے کہا کہ میں چار لائنیں پڑھنا چاہتا ہوں۔ پارلیمنٹ میں ایک نیا قانون منظور ہوا ہے، خفیہ ادارے کسی بھی وقت کسی کی بھی تلاشی لے سکتے ہیں۔ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ تلاشی کا حق قانون سازی کے ذریعے دے دیا گیا، سپریم کورٹ کے چھ ججز بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے خلاف ازخود نوٹس لے۔ اس قانون سے تو لا محدود اختیارات سونپ دیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس اکیلے از خود نوٹس نہیں لے سکتا۔خوش قسمتی سے بل ابھی زیر بحث ہے۔ دیکھتے ہیں پارلیمنٹ کا دوسرا ایوان اس قانون پر کیا رائے دیتا ہے۔ زیادہ علم نہیں اس بل بارے اخبارات میں پڑھا ہے۔
چیف جسٹس کی آبزرویشنز کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل کا اغاز کردیا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بنیادی انسانی حقوق مقننہ کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے۔ بنیادی انسانی حقوق کا تصور یہ ہے کہ ریاست چاہے بھی تو واپس نہیں لے سکتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ انصاف تک رسائی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالتیں ٹریبونل کی طرح ہیں جو آرمڈ فورسز سے وابستہ افراد اور دفاع کے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اب آئینی طریقہ کار کی جانب بڑھ رہے ہیں، کیسے ملٹری کورٹس میں کیس جاتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بنیادی انسان حقوق کو قانون سازوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک پارلیمنٹ کچھ جرائم کو آرمی ایکٹ میں شامل کرے اور دوسری پارلیمنٹ کچھ جرائم کو نکال دے یا مزید شامل کرے، بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت تو ائین پاکستان نے دے رکھی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرٹیکل 175کے تحت ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا ذکر ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ فوجی عدالتوں کا قیام ممبرز آف آرمڈ فورسز اور دفاعی معاملات کے لیے مخصوص ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر ملٹری کورٹس کورٹ آف لاء نہیں تو پھر یہ بنیادی حقوق کی نفی کے برابر ہے، آئین کا آرٹیکل 175تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی بات کرتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اسکلوسیو دائرہ اختیار ملٹری کورٹس کو دیا گیا تاکہ کوئی کہہ بھی نہ سکے کی انسداد دہشتگری کے عدالت ٹرائل کیوں نہیں کر رہے؟ جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس میں کہا کہ میں تو یہی سمجھا ہوں کہ آپ کہہ رہے ہیں ملٹری کورٹس عدالت کی کیٹیگری میں آتے ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں آئین میں ترمیم اس لیے کرنا پڑی تب ملزمان کا آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں تھا۔ اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئینی ترمیم اس لیے ضروری نہیں کہ موجودہ ملزمان اور آرمڈ فورسز کے درمیان تعلق موجود ہے۔ یہ آپ نے اچھی تشریح کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں کے بنیادی حقوق ملٹری کورٹس سے سلب کرنا چاہتے ہیں تو اس کا کوئی پیمانہ ہونا چاہئے، آرمڈ فورسز سے تعلق پر ٹرائل ہونا ہے تو اس کا معیار کیا ہوگا یہ دیکھنا ہوگا، کل سماعت ممکن نہیں ہوگی، ایک جج صاحب دستیاب نہیں، آگے بھی کچھ ججز نے چھٹی پر جانا ہے، جو جون سے کام کررہے ہیں، ہمیں ایک پلان آف ایکشن بنانا ہے۔
اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے عدالت سے چھٹیوں پر جانے سے پہلے فیصلہ کرنے کی استدعا کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دو ہفتوں تک تو بینچ کے ممبران دستیاب نہیں۔ جیسے ہی ججز دستیاب ہوں گے کیس سنیں گے۔ لطیف کھوسہ نے درخواست کی کہ اتوار کو بھی صبح 8 سے شام 8 بجے تک بیٹھیں اور فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں ذاتی طور پر حاضر ہوں، روز رات 9بجے تک بیٹھتا ہوں، اس بنچ کے ممبران کا بھی حق ہے وہ اپنا وقت لیں، ایک ممبر کو محرم کی چھٹیوں سے بھی واپس بلالیا گیا ہے، ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور یہ عدالت بھی، آپ نے ساری صورتحال اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، جنہوں نے اس عدالت کو فعال بنانے میں مدد کی ہے ان کیلئے دل میں احترام ہے، نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں کبھی نہیں چاہوں گا اس ملک کی فوج اپنے شہریوں پر بندوق اٹھائے، فوج سرحدوں کی محافظ ہے، میانوالی ایئربیس گرائی گئی، وہاں معراج طیارے کھڑے تھے، ہم فوج کو پابند کریں گے وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے، میرے ایک ساتھی جج نے ایک اہم ذمہ داری نبھانی ہے میں وہ یہاں بتانا نہیں چاہتا، کچھ ججز کو صحت کے سنگین ایشو ہوسکتے ہیں، کچھ ججز کو چھٹیوں کی ضرورت ہے، عدالتی امور چلتے رہنے چاہئیں اس لئے میں دل سے کوشش کررہا ہوں۔
فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔