کراچی میں بھر پورالیکشن لڑا لیکن ہمارا راستہ روک لیا گیا : سعد رضوی

حافظ سعد رضوی
کیپشن: Hafiz Saad Rizvi
سورس: Independent Urdu

ایک نیوز نیوز: سربراہ ٹی ایل پی حافظ سعد رضوی نے کہا ہے کہ ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ضمنی انتخابات میں بھی ان کے پانچ فیصد ووٹ بڑھے اور کراچی میں بھر پورالیکشن لڑا گیا ’لیکن ہمارا راستہ روک لیا گیا۔یہ تاثرغلط ہے کہ ان کی جماعت کو سیاسی میدان میں لانے اور احتجاج پر اکسانے ’والا کوئی اور ہے۔‘‘سیاسی طور پر ہم نہ کبھی کسی کے ’اشاروں پر اٹھے ہیں یا بیٹھے ہیں۔

خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد پارٹی قیادت سنبھالنے والے ان کے صاحب زادے کا انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ  معاہدہ جن سے ہوا اس کی کاپی بھی ان کے پاس ہے۔ جو الیکشن ہو رہے ہیں ٹی ایل پی تمام وسائل کے ساتھ وہ لڑے گی۔

سعد رضوی نے کہا کہ ان کی جماعت نے کسی سے معاہدہ نہیں کیا اور وہ پر امن سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ وہ الیکشن خود لڑیں گے بھی یا نہیں۔اسی طرح تمام جماعتیں حکومت میں ہونے کے باوجود مسائل بڑھتے جارہے ہیں نہ معیشت سنبھل رہی ہے اور نہ ہی نظام چل رہا ہے ان حالات میں اگرآئندہ انتخابات بھی شفاف نہ ہوئے تو حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔

اس کے علاوہ سعد رضوی سمیت تحریک لبیک کے درجنوں کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول کی لسٹ سے بھی نکال دیے گئے تھے، جس میں ان کے خلاف دہشت گردی اور فرقہ ورانیت سے متعلق مقدمات درج تھے۔ماضی میں کالعدم قرار دی جانے والی ٹی ایل پی کے سربراہ کو اس سے قبل طویل نظربندی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا جس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت میں نومبر 2021 میں ان کو ایک معاہدے کے تحت رہا کردیا گیا تھا۔ 

الیکشن سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی نے گذشتہ عام انتخابات میں بھر پور الیکشن لڑا اور 500 سے زائد ٹی ایل پی امیدواروں نے مختلف نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا۔

ایک سوال کے جواب میں سعد رضوی نے کہا کہ جس طرح آٹھ سال تک ممنوعہ فنڈنگ کا کیس لٹکا کر پی ٹی آئی شوکاز جاری کیا گیا ہے اس سے لگتا ہے فیصلہ نہیں رعایت دی گئی ہے۔

سعد رضوی نے کہا ’یہ فیصلہ نہیں فیور ہے۔ اگر شوکاز دینا تھا تو اس وقت دینا چاہیے تھا جب پہلا کیس آیا اب تو فیصلہ آنا چاہیے تھا۔‘

سعد کے بقول اداروں کی مداخلت سے جس طرح حکومتیں بنائی اور گرائی جارہی ہیں ان حالات میں کوئی بھی جماعت عوامی طاقت سے اقتدار حاصل نہیں کر سکتی۔

ان کے خیال میں ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نقطے پر متفق ہونا ہوگا کہ وہ اپنے مسائل خود حل کریں گے اداروں کی طرف نہیں دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا اگر قومی اتفاق رائے کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں راضی ہوتی ہیں تو ان کی جماعت بھی ساتھ دے گی۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی ناموس رسالت کے معاملے پر جو موقف پہلے رکھتی تھی اب بھی وہی ہے کسی قسم کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔

ان کے بقول، ٹی ایل پی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑے گی چند نشستوں کے لیے کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے الحاق نہیں ہوگا کیونکہ اتحاد کرنے والی پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں۔

ٹی ایل پی پر پابندی کیوں لگی تھی؟

تحریک انصاف کے دور میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے 14 اپریل 2021 کو اعلان کیا تھا کہ مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان پر انسداددہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے رولز 11 بی کے تحت تحریک لبیک پاکستان پرپابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو سیاسی حالات کی بنا پر نہیں بلکہ تحریک لبیک کےکردار کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

یہ معاملہ 2020 نومبر میں شروع ہوا تھا جب فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے لیے تحریک لبیک پاکستان نے ملک گیر احتجاج کیا تھا۔

ٹی ایل پی فیض آباد دھرنا دینے کے بعد ایک مذہبی جماعت کے طور پر سامنے آئی جس کے اس وقت سربراہ خادم حسین رضوی تھے جو نومبر 2020 میں انتقال کر گئے۔

2017 میں ختم نبوت کے بِل کے معاملے پر تحریک لبیک نے اس وقت کے وزیر قانون کا استعفیٰ طلب کیا اور اسلام آباد کی جانب مارچ کر کے وفاقی دارالحکومت کو تین ہفتوں تک بند کیے رکھا تھا۔ بعد میں مذاکرات کے بعد دھرنا ختم ہو گیا تھا۔

ویڈیو کریڈٹ : انڈیپینڈنٹ اُردو

https://www.pnntv.pk/uploads/digital_news/2022-08-03/news-1659542231-2464.mp4