ایک نیوز:پنجاب میں عام انتخابات 14 مئی کو ہوں گے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات التوا کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا شیڈول کالعدم قرار دے دیا ۔ وفاقی حکومت کو پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کے لیے 20 ارب روپے جاری کرنے کا حکم بھی جاری کردیا گیا۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو پنجاب انتخابات کے شیڈول کو ملتوی کرتے ہوئے 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا تھا جسے کالعدم قرار دےد یا گیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال نے تحریری فیصلہ سنایا۔ بنچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس نے قرآنی آیت پڑھ کر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا انتخابات ملتوی کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے غیرآئینی فیصلہ کیا، الیکشن کمیشن کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ 90 روز سے تاخیر کرے۔ انتخابات ملتوی کرنے پر شیڈول میں 13 روز کی تاخیر ہوئی۔
سپریم کورٹ نے پنجاب کا الیکشن شیڈول کچھ ترامیم کے ساتھ بحال کردیا۔ وفاقی حکومت کو پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کے لیے 20 ارب روپے جاری کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو فنڈز مہیا کرے ۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا خیبر پختونخوا میں انتخابات تاخیر پر الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا۔ جبکہ پنجاب میں انتخابات 14مئی کو کروائے جائیں۔ نگران پنجاب حکومت فوری طور پر انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی مدد کرے۔تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔
قبل ازیں گذشتہ روز سماعت پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےریمارکس دیئے تھے کہ وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس سے الیکشن ملتوی ہو سکیں،انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیاگیاعدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے،حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات التوا کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی ، وکیل عرفان قادر, پی ٹی آئی وکیل علی ظفر اور پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق نائیک کمرہ عدالت میں پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ نے حکومتی وکلا کو سسنے سے انکار کردیا۔فاروق ایچ نائیک روسڑم پر آگئے۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جی کارروائی کا حصہ ہیں،ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنیں۔بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔
وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکیل وکلالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ وکلالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے۔
وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں،حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں،جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔
وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں،بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں،ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں،اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے،صدر کو کے پی میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے،درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے،فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا،گورنر کے پی کے نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا،عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے،1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گیے تھے،عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے،جس حکم نامے کا ذکر کرر ہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے،عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا۔الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہو جائیں گی.
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا،21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا،2ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں،2ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایک جج نے درخواست خارج کی تھی،جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا تھا۔چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ آپ کا نقطہ نظر سمجھ گئے ہیں۔
جب بنچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5 رکنی تھا:
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔
عرفان قادر کا اٹارنی جنرل کے کان میں لقمہ۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟عرفان قادر نے کہا کہ 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ 3منٹ سے 15سیکنڈ پر آگئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5رکنی تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا چیف جسٹس کوئی بھی 5ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے،جس عدالتی فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ اقلیتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں 5رکنی بینچ بنا نہیں تھا؟ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کیلئے بہت اہم ہے،ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں، عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9رکنی بینچ کے پاس جائے گا،فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا 5رکنی بینچ کا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نقطہ شامل نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا،نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ نوٹ کے مطابق 4ججز نے خود کو بینچ الگ کیا،بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ 4ججز کو بینچ سے نکالا گیا،9رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے،کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے،کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ازسرنو تشکیل میں تمام 5نئے ججز آجاتے تو کیا ہوتا؟کیا نیا بینچ پرانے 2 ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے؟ نیا بینچ تشکیل دینا جوڈیشل حکم تھا انتظامی نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2 ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں،بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی،5 رکنی بینچ نے 2 دن کیس سنا، کسی نے کہا 2ارکان موجود نہیں،کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ 7رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2 ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی،بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ چار آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا نقطہ سمجھ گئے اگلے نقطے پر آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زیر حاشیہ میں بھی لکھا کہ 2 ججز کی اراء ریکارڈ کا حصہ فیصلہ کا نہیں،ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں،ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔
حل کیا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے،حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں۔رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے،سرکلر جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا،عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے،عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا ہے۔
سرکلر سے فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا:
چیف جسٹس پاکستان نےاستفسار کیا کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا،فیصلے کی انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے،سرکلر میں لکھا ہے کہ 5رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی،مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے،جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں،ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے۔
فیصلے میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے،29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے،عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت موخر کرنے سے،فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے،بنیادی حقوق تو 184/3 کےہر مقدمےمیں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہےجس کے رولز بنےہوئے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے،موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے،اٹارنی جنرل نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروائی کیسے موخر کریں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نےرواں سال میں پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا،2 اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں،سپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے،ازخود نوٹس کے لئے بنچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا،ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعاء جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پہلے طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں،آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔
جسٹس فائز کا فیصلہ:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کی استدعاء فی الوقت مسترد کی تھی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا،کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا،سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے،تمام 15ججز مختلف آراء اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے،آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعاء نہیں کی،آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعاء فل لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ لارجر بینچ کی استدعاء آگے جاکر کروں گا۔
تین دن سینئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کسی جج جو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا،9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا،27 فروری کے 9ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی،جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے،فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں،گزشتہ 3دن میں سینیر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں،لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے،3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی 2ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایک فیصلہ تین رکنی اکثریت نے دیا ایک دو رکنی اقلیت نے،بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے، سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہوسکتا ہے،سماعت کے بعد کیے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے، کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہوجاتا ہے،نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ پانچ رکنی بینچ میں تھے؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ دو الگ الگ بینچز نے الگ الگ کاروائی کی تھی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں،صورتحال سب کیلئے ہی مشکل ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔
ان کیمرا سماعت:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات ہر ان کیمرا سماعت کی جائے۔
فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے،بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے،الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ سٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، کوئی اگر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں،الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں۔
سیکرٹری دفاع سے تحریری رپورٹ طلب:
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ر حمود الزمان روسٹرم پر آگئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حساس معلومات نہیں لیں گے مجموعی صورتحال بتا دیں،فلحال پنجاب کا بتائیں کیونکہ کے پی کے میں ابھی تاریخ ہی نہیں آئی۔کیا پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں۔
سیکرٹری دفاع نے کہا کہ پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں،کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا۔نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔
ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات:
عدالت نے علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان چیمبر سماعت پر آپکا کیا موقف ہے؟
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں،سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے دستیاب ہو سکتے ہیں۔سیکیورٹی کا ایشو رہے گا آئینی ضرورت 90دن کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟سوال یہ ہے کہ 8اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟کیا الیکشن کمیشن کو combat والے اہلکار درکار ہیں؟
علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔ریزور فورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سر بمپر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں۔ جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گیے۔ کوئی سوال ہوا تو اسکا جواب آپ سے لیں گیے۔آپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔
الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں:
جسٹس اعجاز الاحسن نےریمارکس دیئے کہ حساس معاملات کو سمجھتے ہیں۔پبلک نہیں ہونے چاہیں۔نیشنل سیکورٹی اہلکاروں، عوام کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے ۔
سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ریزرو فورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے،ریزرو فورس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے،الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی،الیکشن کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئیگا۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز، بحری اور ہوائی فورسز سے بھی معلومات لیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جن علاقوں میں سیکورٹی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں،الیکشن کمیشن نے 45فیصد پولنگ سٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے،جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں،جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع سے 2گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں۔سیکریٹری دفاع نے کل تک مہلت مانگ لی،عدالت نے سیکریٹری دفاع کو کل تک کی مہلت دیدی۔سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے،سیکریٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکے،ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ عامر محمود عدالت میں پیش ہوئے۔
کھربوں کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی خسارہ کم کیا جارہا ہوگا،آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کر کے خسارہ کم کیا جاسکتا کے،کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جارہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے۔ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز پلاننگ کمیشن جاری کرتا ہے،ترقیاتی فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا۔
سماعت میں آدھے گھنٹے کا مزید وقفہ کردیا گیا۔چیف جسٹس نے ریمار کس دیئے کہ وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کو سنیں گے۔
ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ 170ارب روپے جمع کرنے کیلئے نئے ٹیکس لگائے گئے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 20 ارب روپے دینے سے بجٹ پر کتنے فیصد فرق پڑے گا،کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں ؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا،اندازہ ہے کہ بجٹ خسارہ ابھی موجود ہے۔
ججز کی تنخواہیں کم کریں:
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پٹرولیم مصنوعات پر حکومت کو خسارہ 157ارب روپے تھا، خسارہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہوجاتا۔ ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خسارہ طے ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی ؟ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے، قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کردے گی، پانچ فیصد تنخواہ تین اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے،ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔
ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ آپریشنل اخراجات اورتنخواہیں ہی غیر ترقیاتی اخراجات ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے اخراجات کم کرنے کیلئے اقدامات کئےہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی تقاضہ پورا کرنے کیلئے آرٹیکل 254ہے۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کرینگے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے،کونسا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔
عرفان قادر نے کہا کہ اگر عدالت ذہن بنا چکی ہے تو بتادیں۔ عرفان قادر ڈائس پر آگئے،ہمار موقف سن کیں پھر سیکرٹری سے بات کرلیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو کس نے کہا ہم نے طے کرلیا ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ عدالت سوشل میڈیا پر چلنے والی باتوں کا بھی نوٹس لے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوموٹو نہیں لیں گے، آپ درخواست دیں۔
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر کےدلائل شروع:
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کےوکیل نے دلائل دینا شروع کیے۔عرفان قادر نے کہا 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں،3 ججز نے حکم جاری کیا،یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا،عدالت اس تنازعہ کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرے،فیصلے کی تناسب کا تنازعہ ججز کا اندرونی معاملہ نہیں ہے،درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے،سرکولر سے عدالتی فیصلے کا اثر ذائل نہیں کیا جاسکتا،چیف جسٹس اپنے سرکولر پر خود جج نہیں بن سکتے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے،ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے۔
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کہا کہ قومی مفاد آئین اور قانون پر عملدرآمد میں ہے،آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے،ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں،ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں،ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی،قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے،صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے 2 سال پہلے نہیں۔کوشش ہے اپنی بات مختصر رکھوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیاکہ آپ کتنی دیر دلائل دینگے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں کوشش کرونگا 30 منٹ میں اپنی بات مکمل کرلوں،اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بنچ سے الگ ہوجاتے ہیں۔ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں،بنچ سے جانبداری منصوب کی جارہی ہے،پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کرچکی ہے،فل کورٹ پر عدالت اپنی رائے دے چکی ہے،پتہ پتہ بوٹا بوٹا باغ تو سارا جانے ہے،جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے، عدالت پر عدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیئے،عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے،فالحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا،میری نظر میں انصاف نہیں ہو رہا،ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو،الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہئے،فیصلہ تین دو کا تھا یا 4/3 کا اس پر بات ہونی چاہیئے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائیکورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں،خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دیدی ہے،پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں،صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاذ نہیں، صدر کو تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے،صدر ہر کام میں کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے، الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کیلئے ہے،ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونے ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نے 184/3 کے مقدمات پر سماعت سے روکا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں اندرونی تنازعہ کو حل کیا جائے،184/3تنازعہ حل کرنے تک مقدمے پر سماعت روکی جائے،جسٹس فائز عیسی سینئر جج ہیں انکے فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس فائز عیسی سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے،ان معاملات پر تمام ججز جلد ملیں گیے،جسٹس فائز عیسی ملاقات میں کچھ ایشوز ہائی لائٹ کیے ہیں،رولز بنانے کے لیے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی تحلیل درست تھی یا نہیں،وزیر اعلی پرویز الٰہی کی آڈیو لیک آئی جو فواد چوہدری سے متعلق تھی، پرویز الٰہی نے کہا کہ فواد چوہدری پہلے گرفتار ہوتے تو اسمبلی نہ ٹوٹتی،پنجاب اسمبلی نہ وزیر اعلی نے توڑی نہ گورنر نے،جسٹس اعجاز الاحسن کو پانچ رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا،مناسب ہوتا شفافیت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا۔
چیف جسٹس پاکستان نےریمارکس دیئے کہ جو وجہ میں نے سوچ کر بینچ بنایا وہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔
عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا بہت مداح ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مداحی پر آپ کا مشکور ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل ریکارڈ سے دکھائیں جسٹس اعجاز الاحسن کب بینچ سے الگ ہوئے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی،چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے دو ججز کے نوٹ کے خلاف ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کےحکمنامے ریکارڈ کا حصہ ہیں،بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا،کئی مرتبہ تین ججز اٹھ کر جاتے تھے اور 2ججز واپس آتے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے،ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا،ماحول پورے ملک کی طرح عدالت اور باہر خراب ہے،ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی،یہ ایشو پارلیمنٹ کو خود حل کرنا چاہیے تھا۔الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل مکمل ہوگئے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دلائل سے محظوظ ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم کےاعلامیےمیں بائیکاٹ کا ذکر نہیں:
فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ عدالت میں دلائل دینا چاہتا ہوں،پی ڈی ایم کے اعلامیے میں بائیکاٹ کا ذکر نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟
سپریم کورٹ نے حکومتی سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو سننے سے انکار کر دیا۔
متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر :
سماعت شروع ہوتے ہی اٹارنی جنرل پاکستان کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہےکہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔اٹارنی جنرل کی 7 صفحات پر مشتمل متفرق درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ یہ کیس ان ججز کو سماعت کے لیے بھجوایا جائے جو اس کیس کا حصہ نہ رہ چکے ہوں۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کی بلڈنگ کے باہر پولیس، ایف سی اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔چیف جسٹس پاکستان سے اظہار یکجہتی کیلئے بڑی تعداد میں وکلاسپریم کورٹ کے باہر پہنچ چکے ہیں، کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو سپریم کورٹ داخلے پر پابندی ہوگی، سپریم کورٹ میں وکلا، صحافیوں اور جن کے مقدمات ہوں گے انہیں اجازت ہوگی۔