عالمی اشرافیہ کے اہم رکن مصری محمد الفائد 94 برس کی عمر میں انتقال کرگئے

muhammad alfayd
کیپشن: muhammad alfayd
سورس: google

 ایک نیوز : معروف مصری تاجر اور ہیرڈز اسٹورز کمپنی کے سابق مالک محمد الفائد 94 سال کی عمر میں بدھ کے روز وفات پا گئے۔

وہ اس وقت شہ سرخیوں میں آئے تھے جب ان کے بیٹے ڈوڈی الفائد برطانوی شہزادی ڈیانا کے ساتھ ایک کار حادثے میں مارے گئے تھے۔

محمد الفائد مصر میں پیدا ہوئے اور انھوں نے سنہ 1970 کی دہائی برطانیہ جانے سے پہلے مشرق وسطیٰ میں ایک کاروباری سلطنت کھڑی کر لی تھی۔

تاہم اپنے نئے ملک کا پاسپورٹ حاصل کرنے کی ان کی خواہش کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکی۔

انھوں نے اپنے بعد کے سال ڈوڈی اور ڈیانا کی موت کے گرد و پیش کے حالات پر سوال اٹھاتے ہوئے گزارے۔

مسٹر الفائد پچھلی دہائی میں زیادہ تر عوام کی توجہ سے دور رہے اور وہ اپنی اہلیہ ہینی کے ساتھ سرے کی اپنی حویلی میں رہائش پذیر تھے۔

ان کے اہل خانہ کی طرف سے جاری کردہ بیاں میں کہا گیا ہے کہ : 'مسز محمد الفائد، ان کے بچے اور پوتے اس بات کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے پیارے شوہر، ان کے والد اور ان کے دادا محمد الفائد بدھ 30 اگست سنہ 2023 کو بڑھاپے میں پُرسکون طور پر ابدی نیند سو گئے۔'انھوں نے اپنے پیاروں کے ساتھ ایک طویل اور مکمل ریٹائرمنٹ کا لطف اٹھایا۔'

الفائد مصر میں اپنے آبائی وطن سکندریہ کی سڑکوں پر فزی ڈرنکس بیچ کر کاروبار میں ایک بڑا نام بن گئے۔ ان کے تمام رابطے درست ثابت ہوئے۔ان کو اس وقت بڑا موقع ملا جب وہ اپنی پہلی بیوی سمیرا خاشقجی سے ملے جو کہ سعودی کروڑ پتی اور ہتھیاروں کے ڈیلر عدنان خاشقجی کی بہن تھیں۔ اور عدنان خاشقجی نے الفائد کو اپنے سعودی عرب کے درآمدی کاروبار میں شامل کیا تھا۔

اس کردار نے انھیں مصر میں نئے روابط استوار کرنے میں مدد کی۔ اگرچہ یہ شادی دو سال سے کچھ زیادہ عرصہ تک ہی چل سکی لیکن الفائد اس دوران اپنا شپنگ کا کاروبار شروع کرچکے تھے۔1966 میں وہ دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک برونائی کے سلطان کے مشیر بن گئے۔

سنہ 1974 میں وہ برطانیہ منتقل ہو گئے اور پانچ سال بعد پیرس میں اپنے بھائی علی کے ساتھ مل کر 20 ملین پاؤنڈ میں رٹز ہوٹل خرید لیا۔انھوں نے کان کنی کے گروپ لونرہو گروپ کے ساتھ ایک الجھانے والی بولی کی جنگ کے بعد سنہ 1985 میں 615 ملین پاؤنڈ میں ہیرڈز کو خرید لیا۔

ان کی ملکیت میں آنے کے بعد فلہم فٹبال کلب تیسرے درجے سے پریمیئر لیگ تک پہنچ گیا۔انھوں نے 1987 میں نادار، صدمے کا شکار اور بہت بیمار نوجوانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے الفائد چیریٹیبل فاؤنڈیشن قائم کیا۔

پیرس میں واقع ان کے رٹز ہوٹل سے ہی ان کے بیٹے ڈوڈی اور ان کی اس وقت ساتھی پرنسس آف ویلز ڈیانا کار حادثے سے قبل روانہ ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہی وہ دونوں 1997 میں مارے گئے تھے۔ ڈوڈی ایک فلم پروڈیوسر تھے۔

الفائد اس حادثے کے صدمے سے کبھی بھی ابھر نہیں سکے اور وہ اس حادثے کے گرد قیاس آرائیوں میں مبتلا ہوکر رہ گئے۔

فروری سنہ 2008 میں پوچھ گچھ میں ان کے شواہد میں یہ دعوے شامل تھے کہ یہ اموات شہزادہ فلپ کے حکم پر اور ایم آئی 6 کی ملی بھگت سے ہوئیں۔ان کے خیالات کو 'سازشی نظریہ' سمجھا گیا اور جیوری نے اسے مسترد کردیا۔

1995 میں دوسری بار پاسپورٹ کی درخواست کے مسترد ہونے سے ناراض ہو کر انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے دو کنزرویٹو وزرا - نیل ہیملٹن اور ٹم سمتھ - کو ہاؤس آف کامنز میں اپنے مفادات کے بارے میں سوالات کرنے کے لیے ادائیگی کی تھی۔ان دونوں نے حکومت کو چھوڑ دیا۔ اور مسٹر ہیملٹن نے الزام کی تردید کی لیکن الفائد کے خلاف وہ ہتک کا مقدمہ ہار گئے۔تیسرے سیاستدان جوناتھن ایٹکن جو اس وقت کابینہ کے وزیر تھے، انھوں نے بھی استعفیٰ دے دیا جب الفائد نے ان کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ وہ پیرس میں رٹز ہوٹل میں سعودی ہتھیاروں کے ڈیلروں کے ایک گروپ کے ساتھ مفت قیام کرتے تھے۔

الفائد نے سنہ 2010 میں ہیرڈز قطر کے خودمختار فنڈ کو فروخت کر دیا۔ خریداری کی قیمت کا تقریباً نصف کمپنی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا گیا۔