10 ہزار بلاکر دو لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جاسکتی: چیف جسٹس

Nov 02, 2022 | 13:21 PM

muhammad zeeshan

ایک نیوز نیوز:  سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت کیس میں عمران خان سے ہفتے تک جواب طلب کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔

 پی ٹی آئی وکلا بابر اعوان اور فیصل چوہدری کی طرف سے صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون پیش ہوئے اور کہا کہ بابر اعوان اور فیصل چوہدری نے جواب جمع کرادیا ہے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں وکلاء کے جواب بظاہر مناسب ہیں، جن کا جائزہ بعد میں لینگے، پہلے حکومتی وکیل کا موقف سن لیتے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ عمران خان نے کسی بھی یقین دہانی اور عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا ہے، حالانکہ عمران خان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی، 25 مئی کو پہلا عدالتی حکم دن گیارہ بجے دیا گیا دوسرا شام 6 بجے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینے کیلئے ہی تھا لیکن عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا کہ ہدایت کس سے لی گئی ہے، اگر کسی سے بات نہیں ہوئی تھی تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا، اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی، عدالت نے بابر اعوان اور فیصل چوہدری پر اعتماد کیا تھا، دونوں وکلاء نے کبھی نہیں کہا انہیں ہدایات نہیں ملی، عمران خان کو عدالتی حکم کا کیسے علم ہوا، یقین دہانی پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کی جانب سے کرائی گئی تھی، پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے۔

 ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ پی ٹی آئی نے 2014 میں بھی این او سی کی خلاف ورزی کی تھی، سپریم کورٹ میں عمران خان پر شرمناک کہنے پر توہین عدالت کا کیس چلا، دو مرتبہ عمران خان الیکشن کمیشن سے بھی معافی مانگ چکے ہیں، عدالت کئی مرتبہ تحمل کا مظاہرہ کر چکی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس ماضی کے مقدمات سے مختلف ہے۔

وکیل احسن بھون نے کہا کہ عدالت نے حکومت کو وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا، لیکن حکومت نے وکلاء کی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ وکلاء کا رابطہ نہیں ہوا تو یقین دہانی کس طرف سے کرائی گئی؟، کیا وکلاء کی کسی سینئر لیڈر سے بات نہیں ہوئی تھی، کیا ٹیلی فونک رابطہ بھی نہیں کیا گیا تھا؟۔

وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ عمران خان سفر میں ہوں تو جیمر ساتھ ہوتے ہیں، میرا اسد عمر اور بابر اعوان سے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کارروائی سے آگاہ کیا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اسد عمر رابطے کے وقت ریلی میں نہیں تھے، تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے، جیمرز تھے تو اسد عمر سے رابطہ کیسے ہوا؟۔

فیصل چوہدری نے کہا کہ اسد عمر سے رابطے کے وقت عدالت کا کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم میڈیا پر بھی نشر کیا گیا تھا، عدالت نے 25 مئی کو توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، اسد عمر سے دوسری بار بھی رابطہ ہو سکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ 26 مئی کے حکم میں عدالت نے کہا کہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر رابطہ نہیں ہوسکا تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا، عدالت نے پی ٹی آئی کی یقین دہانی پر حکومت کو ہدایت دی تھی، وکلاء کو ایچ نائن گراونڈ میں موجود ہونا چاہیے تھا، رات دس بجے تک تو آگ لگ چکی تھی، کیا عدالت اب عمران خان سے پوچھے کہ کیا ہوا تھا؟۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ وکلاء نے کبھی نہیں کہا تھا کہ قیادت سے رابطہ نہیں ہوا تھا، واضح یقین دہانی پر ہی عدالت نے وکلاء پر اعتماد کیا تھا، جلسے کے مقام کے حوالے سے صرف ایچ نائن گراؤنڈ کا کہا تھا، تحریک انصاف نے عدالتی حکم کا غلط استعمال کیا، عدالت نے تو پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو تحفظ دیا تھا، عدالتی حکم پر حکومت نے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گاڑی یا جہاز نہ ہونا صرف بہانے ہیں، عدالت کو یقین دہانی کروا کر بہانے نہیں کیے جاتے، اسد عمر سے دوسری مرتبہ رابطہ کیسے نہیں ہوسکتا تھا، عدالت کا پہلا کام تھا کہ املاک کو نقصان نہ پہنچانے کا کہتی، پی ٹی آئی نے تو درخواست ہی ایچ نائن گراؤنڈ کی دی تھی، ایچ نائن سے آگے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، دو وکلاء کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا، اپنا قلم آئین کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتے، دس ہزار بندے بلاکر دو لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جاسکتی، فیض آباد دھرنے کے دوران ایمبولینس میں لوگ مر گئے تھے، جمہوریت کو ماننے والے اسطرح احتجاج نہیں کرتے۔

سپریم کورٹ نے عمران خان سے ہفتے تک جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ ہفتے کو ہی آئندہ سماعت کی تاریخ مقرر کرینگے۔

مزیدخبریں