ایک نیوز: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی سماعت میں اہم پیشرفت سامنے آگئی۔ عدالت نے حکومت کی فل بینچ بنانے کی سماعت مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمرعطاءبندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقدمے پر فریقین کے سنجیدہ بحث کی توقع ہے۔ لارجر بنج کو بہترین معاونت فراہم کرنی ہو گی۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا قانون ہے۔ ریاست کے تیسرے ستون کے بارے میں یہ قانون ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قانون سازی کے اختیار سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں۔ فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے سیکشن 55 کا بھی جائزہ لیں۔ یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ آزاد عدلیہ آئین کا بنیادی جزو ہے۔ الزام ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعے خلاف ورزی کی گئی۔
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے دلائل میں کہا کہ پاکستان بار نے ہمیشہ آئین اور عدلیہ کیلئے لڑائی لڑی ہے۔ مناسب ہوگا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بینچ میں سات سینیئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔ بینچ کے ایک رکن کے خلاف چھ ریفرنس دائر کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کردی۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 7 سینئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ افتخار چوہدری کیس میں عدالت میں قرار دیا ریفرنس صرف صدر مملکت دائر کرسکتے ہیں۔ کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کو کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا۔ شکایات ججز کے خلاف آتی رہتی ہیں۔ مجھ سمیت سپریم کورٹ کے اکثر ججز کے خلاف شکایات آتی رہتی ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے۔ سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔ انتخابات کے مقدمے میں بھی کچھ ججز کو نکال کر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ ججز اور عدلیہ کو احترام نہ دیا گیا تو انصاف کا مطالبہ نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پاکستان بار کونسل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہ کہ پاشا صاحب آپ نفیس آدمی ہیں۔ اپنے ارد گرد سے معلوم کرائیں آپ کے لوگ کس کو فل کورٹ کہتے ہیں۔ اس پر حسن رضا پاشا نے کہا کہ وکلا کے تحفظات سے عدالت کو آگاہ کیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔ ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی حکم امتناع واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ پہلے سمجھا تو دیں کہ قانون کیا ہے اور کیوں بنا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت بنچ بڑھانے پر غور کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بنچ کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے تمام فریقین سے تحریری جواب مانگ لیا۔ اس کے علاوہ عدالت نے سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمانی کاررواٸی کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ قاٸمہ کمیٹی میں ہونیوالی بحث کا ریکارڈ بھی پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 8 مئی تک ملتوی کردی گئی۔