غذائی قلت کا شکار پاکستان سالانہ 4 ارب ڈالرز کی خوراک ضائع کررہا ہے، رپورٹ

غذائی قلت کا شکار پاکستان سالانہ 4 ارب ڈالرز کی خوراک ضائع کررہا ہے، رپورٹ
کیپشن: Malnutrition-prone Pakistan is wasting $4 billion worth of food annually, reports(file photo)

ایک نیوز: تیسری دنیا کا غیرترقی یافتہ ملک پاکستان ایک جانب تو شدید غذائی قلت کا شکار ہے تو دوسری ہی جانب یہاں سالانہ اربوں ڈالرز کی خوراک ضائع کیے جانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی دستاویزات ایک نیوز نے حاصل کرلی ہیں۔ 

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق ہم سالانہ ملکی پیداوار کی تقریباً 26 فیصد خوراک ضائع کر دیتے ہیں۔ ملک میں خوراک کا سالانہ ضیاع19.6 ملین ٹن ہے۔ دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ چار ارب ڈالرز کی خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔ 

عالمی ادارہ خوراک کے مطابق اوسط پاکستانی گھرانہ ماہانہ آمدنی کا 50.8 فیصد خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ عالمی ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا کے افلاس زدہ 121ممالک کی فہرست میں گزشتہ برس 99 ویں نمبر پر تھا۔ 

عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 36.9 فیصد خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ پاکستان میں آبادی کے 20.5 فیصد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان میں 5 سال سے کم عمر کے 18 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ پانچ برس کی عمر کے تقریباً 40 فیصد بچوں کو نشوونما میں رکاوٹ اور 29 فیصد کم وزنی(انڈر ویٹ) کا شکارہیں۔ پاکستان کے 6سے 23 ماہ کی عمر کے سات میں سے صرف ایک بچے کو متناسب غذائیت والا کھانا ملتا ہے۔ 

غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ قوتِ خرید میں مسلسل کمی لوگوں کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل رہی ہے۔ دستاویزات کے مطابق ہر برس کئی اقدامات کے باعث کروڑوں ٹن غذا ضائع ہوجاتی ہے۔ شکل ،سائز اور رنگ کے لحاظ سے معیار پر پورا نہ اترنے والی تازہ خوراک ضائع کردی جاتی ہے۔ چھانٹی کے عمل کے دوران خوراک اکثر سپلائی کے سلسلے سے نکال دی جاتی ہے۔ غذائی اشیا استعمال کی حتمی تاریخ ،تاریخ کے قریب یا تاریخ گزر جانے پرخوردہ فروش یا صارفین ضائع کردیتے ہیں۔ صحت بخش غذائی اشیاء کی زیادہ مقدار گھروں کے باورچی خانوں اور کھانے پینے کے مراکز پر ضائع ہو جاتی ہیں۔ باورچی خانوں اور کھانے پینے کے مراکز میں اکثر غذائی اشیاء استعمال نہیں ہوتیں یا چھوڑ دی جاتی ہیں۔ گھروں اور کھانے پینے کے مراکز میں غذائی اشیاء ضرورت سے زائد پکائی جاتی ہیں جس کے سبب وہ ضائع ہو جاتی ہیں۔ 

غذائی ماہرین کے مطابق ملک میں اجناس اور پھلوں کو محفوظ کرنے کی سہولیات کا فقدان بھی غذائی اشیاء کے ضیاع کا سبب ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا کہنا ہے کہ خوراک کا ضیاع انفرادی عمل ہے،آگاہی مہم کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے ماہ رمضان میں شروع کی گئی مفٹ آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ بچنے سے 30 افراد جان کی بازی بھی ہارچکے ہیں۔ 

واضح رہے کہ  اقوام متحدہ کی  رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ضائع شدہ کھانے کا تناسب  سالانہ فی کس 74 کلوگرام ، چین میں 64 کلو گرام اور بھارت میں فی کس 50 کلوگرام ہے۔ خوراک سب سے زیادہ یعنی تقریبا 61 فیصد گھروں میں ضائع کی جاتی ہے  سروس سیکٹر یعنی ریستوران ، ہوٹلز  پر 26 فیصد جبکہ ریٹیل دکانوں یعنی ، ڈھابوں اور اسٹالز میں 13فیصد خوراک ضائع کی جاتی ہے۔

 اقوام متحدہ کی طرف سے شائع کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سن  2019-2020 میں انسانوں کے لیے گھروں، دکانوں اور ہوٹلوں میں دستیاب خوراک کا 17 فیصد ضائع کر دیا گیا۔