ایک نیوز:چیئرمین کمیٹی نےوزارت خارجہ کے حکام کو ہدایت کی ہےکہ پراچہ، ماجد خان اور ربانی برداران کے متعلق تمام تفصیلات دیں کہ انکی رہائی میں تاخیر کیوں ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین ولید اقبال کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں شروع ہوا،اجلاس میں سید وقار مہدی، عابدہ عظیم، فلک ناز چترالی، ڈاکٹر ہمایوں مہمند اورسیمی ایزدی شریک ہوئے۔ سیمی ایزدی نے کہا کہ ربانی برادر 24فروری2023 کا پاکستان پہنچ گئے ہیں اور کراچی میں ہیں،ایک بھائی نے خطاطی بھی اسی دوران کی ہے ۔21سال بغیر چارجز کے وہ جیل میں رہے اس سے بڑی کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ماجدخان جو گوانتانامو بے میں ہے اس کے بارے میں بتائیں۔
حکام وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان کو کہا تھا کہ آپ کے شہری گوانتامو بے میں ہیں جس پر ہمایوں مہند نے کہا کہ امریکا نے کب کہا تھا کہ یہ قیدی پاکستانی ہیں؟ جس پر حاکم وزارت خارجہ نے کہا کہ اس کا مجھے ابھی علم نہیں ہے ۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ایک سینیٹر کی جانب سےیہ مسئلہ 2022 میں کمیٹی کے سامنے لایا گیا تھا۔سینٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ہماری حکومت 20سال پہلے کیا کر رہی تھی اگر سینٹر ایسے ایشوز نہ اٹھائے تو حکومت کچھ کیوں نہیں کرتی ۔ہمارے سینیٹرز اور ایم این ایز بیس سال پہلے تک کیا کر رہے تھےَ؟پہلے کیوں نہیں یہ معاملہ اٹھایا گیا اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟
سینیٹر سید وقار مہدی کا کہنا تھا کہ ان دو بھائیوں کا کیس میڈیا میں کب رپورٹ ہوا؟ان کو اور انکی فیملی کو بھی یہاں بلائیں کہ ان پر کیا گزری ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو ساتھ بٹھائیں گے۔سینیٹر ہمایوں مہمند نے جس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم وزارتِ داخلہ اور وزارت خارجہ کو ساتھ بٹھائیں گے ،انکو خود بیٹھنا چاہیے۔ربانی بردارز کے کوئی نئے ڈاکیومنٹ تو بنے نہیں۔3 سے چار ملین ڈالرز ان ربانی بردارز کو حکومت انکے نقصانات کے بھر کے دے ۔ ربانی برادرز کو کمیٹی میں بلایاجائے تاکہ وہ اپنے بارے میں بتائیں ۔
ہمایوں مہمند نے کہا کہ گورنمنٹ نے اپنے شہریوں کو چھوڑ دیا اور کسی نے نہیں پوچھا. 2008میں میں نے وفد لے کر گیا اور عافیہ کو ملنے گئے ہم نے اپنی کوشش کی اب دوبارہ کوشش ہورہی ہے ۔میں نے فوزیہ صدیقی کو کہاتھا کہ عمران خان کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں وہ ان کو عافیہ کے لیے درخواست کریں مگر اس پر پیش رفت نہیں ہوئی ۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ 1.2ملین ڈالر عافیہ کے کیس میں وکیل کو دیئے تھے،ہم اس وقت امریکا کے اتحادی تھے ۔ہمایوں مہمند نے کہا کہ ہم جرم میں اتحادی تھے کیا اس لیے اپنے شہریوں پر خاموش تھے۔مشاہد حسین سید نےکہا کہ ہم امریکا کے ساتھ جرم میں اتحادی تھے۔
شاہد حسین نے کہا کہ خالد شیخ محمد کی شہریت کیا ہے جو پاکستان کراچی سے پکڑے گئے تھے ۔ جس پر حکام وزارت خارجہ نے جواب نہیں دیا ۔
حکام وزارت کا کہنا تھا کہ ماجد خان فروری 2023کو رہاکردیا گیا وہ سنٹرل امریکہ میں رہے رہے ہیں اور پاکستان نہیں آئے19سال قید رہے ہیں ۔ گوانتاناموبے میں اب کوئی پاکستانی نہیں ہے امریکا سے ہم نے پوچھا ہے گوانتاناموبے کوئی پاکستانی تو نہیں ہے جس پر انہوں نے کہاکہ ایسا کوئی نہیں ہے جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتا ہو۔
حکام وزارت خارجہ کا کہنا ہےکہ ماجد خان بھی فروری میں رہا ہوئے۔ماجد خان اپنی مرضی سے پاکستان واپس نہیں آئے ۔امریکی حکومت نے بتایا ماجد خان پاکستان نہیں جانا چاہتے تھے۔ چیئرمین کمیٹی نےحکام سے سوال کیا کہ ماجد خان کتنے سلا جیل میں رہے؟ جس پر حکام وزارت خارجہ نے کہا کہ ماجد خان انیس برس رہے جیل میں، جس پر کمیٹی ارکان نےتشویش کا اظہار کیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 21سال کسی کو حراست میں رہنا کیا ٹھیک ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ ہمارا ٹیبل بنا ہوا ہے کہ کس ملک میں کتنے پاکستانی قیدی ہیں اور کس طرح سے انہیں رہا کروایا جائے۔ربانی بردارز کو پاکستانی شناخت ثابت کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا رہا تھا۔ سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ تو اب ایسا کیا ہوا کون سے دستاویزات تھے جن کی بنیاد پر رہا ہوئے۔چیئرمین کمیٹی نےوزارت خارجہ حکام کو ہدایت کی کہ پراچہ، ماجد خان اور ربانی بردارز ان چاروں کے متعلق تمام تفصیلات دیں کہ اتنی تاخیر کیوں ہوئی ۔