پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں: چیف جسٹس

Jul 02, 2024 | 11:56 AM

ایک نیوز: سپریم کورٹ میں  مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت ہوئی،  چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی، اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور  دلائل کا آغاز کیا۔

سماعت میں تمام معزز ججز نے اپنے ریماکس دیے  جبکہ وکلا حضرات اور اٹارنی جنرل نے اپنے اپنے دلائل سے ججز کو قائل کیا، بعد ازاں کیس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں، ہر فیصلے نے آئین کو فالو کیا، کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں، پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں۔

تفصیلات کے مطابق  اٹارنی جنرل منصوراعوان  نے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ آ گیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے،وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ  آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزادامیدواروں کو،،سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان  نے اپنے دلائل میں کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایاگیا، غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے،منصوراعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کیا،  272 مکمل سیٹیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزادامیدوار منتخب ہوئے، 9 نے سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا۔

سپریم کورٹ کے ججز کا کہنا تھا کہ 2018 میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں جس پر اٹارنی جنرل منصوراعوان نے 2018 میں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بتایا، اٹارنی جنرل منصوراعوان نے 2002 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔
اٹارنی جنرل منصوراعوان نے کہا کہ سوال ہے کیا آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحادکونسل میں آزاد ا مید و ا ر و ں کی شمولیت ہوسکتی اور سنی اتحادکونسل مخصوص نشستوں کی اہل ہے یا نہیں؟ 
 جسٹس اطہرمن اللہ نے ریماکس دیے کہ آرٹیکل51 ایک سیاسی جماعت کا حق ہے،  الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو باہر کیا جو ایک اہم سوال ہے، کیا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کو دیکھے کیونکہ ووٹرز نے سیاسی جماعت کو ووٹ دیاتھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزادامیدواروں کی تعداد 2024 میں بہت بڑی ہے، موجودہ صورتحال میں آزادامیدوار کی تعدادکیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصوراعوان  نے کہا کہ آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریماکس گیے کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے۔
 جسٹس منیب اختر نے اپنے ریماکس میں کہا کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟۔
 چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے ریماکس میں کہا کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں،ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں،آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں، موجودہصورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا یہ ان کا کام ہے،آئین میں کیا کیوں نہیں ہے یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔    

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ فیصل صدیقی نے کہا تھا اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتی تو خالی چھوڑ دیں، پارلیمانی پارٹی کےلیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے انتخابات میں نشست جیتی ہو، پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے،پارلیمانی پارٹی کی مثال غیرمتعلقہ ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے ریماکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟۔ 
اٹارنی جنرل منصوراعوان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو۔ 
 جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کر چکا ہے؟
  اٹارنی جنرل نے کہا کہ  مجھے اس بات کا علم نہیں ۔
 جسٹس منصور علی شاہ نے ریماکس دیے کہ الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرتا ہے؟ پارلیمانی پارٹی قرار دینے کا نوٹیفکیشن کیسے آیا؟ وہ نوٹیفکیشن سنی اتحاد کونسل نے ریکارڈ پر رکھا ہے، وہ نہیں، آپ بتائیں الیکشن کمیشن کے اس نوٹیفکیشن پر کیا کہتے ہیں۔
 جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹیفکیشن اٹارنی جنرل کو دکھادیا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن بھی دکھا دیا۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ آزادامیدوار پارلیمانی پارٹی نہیں بنا سکتے، آزادامیدواروں نے اسی میں شامل ہونا ہوتا ہے جو پارٹی ایک سیٹ کم سے کم جیت کر آئی ہو۔ 
 چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے ریماکس میں کہا کہ یعنی سیاسی جماعت کے جیتے ہوئے امیدوار ہوں تو سیاسی پارٹی آٹومیٹکلی پارلیمانی پارٹی بن جاتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزادامیدوار پارٹی بنا لے تو آرٹیکل 51 نافذ نہیں ہوگا، آزادامیدوار کی اسمبلی سے باہر تو پارٹی تصور کی جائےگی۔
اٹارنی جنرل منصوراعوان نے کہا کہ آزادامیدوار کسی ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا جو پارلیمانی پارٹی نہ ہو۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے علامہ اقبال کے بانگ درا کے شعر کا حوالہ دے دیا مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں، میرا شوق دیکھ اور میرا انتظار دیکھ۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریماکس دیے کہ اٹارنی جنرل آپکی تشریح مان لیں تو پارلیمان میں بیٹھے اتنے لوگوں کا کوئی پارلیمانی لیڈر نہیں ہوگا؟ موقف مان لیا تو کسی کیخلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ہونے پر کارروائی ممکن نہیں ہوگی۔
 جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک طرف ہمیں بتایا جاتا ہے الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے،اب الیکشن کمیشن کا ہی ریکارڈ ان لوگوں کو سنی اتحاد کونسل کا مان رہا ہے، بتائیں نا الیکشن کمیشن انہیں پارلیمانی پارٹی مان کر کیسے نشستوں سے محروم کر رہا ہے، الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کو بتا رہا ہے کہ ہمارے ریکارڈ میں یہ پارلیمانی جماعت ہے، ریکارڈ کسی وجہ سے ہی رکھا جاتا ہے ناں؟۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ انتخابات ہی تعین کریں گے کہ پارلیمانی پارٹی کون ہوگی، آزاد امیدو ار اگر ہوں تو پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو سکتے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میں آزادامیدوار کے بارے میں نہیں پوچھ رہی، میں انتخابات میں حصہ لینے کے حق کے حوالے سے پوچھ رہی،آپ کے مطابق سیاسی جماعت ہی پارلیمانی پارٹی بنے گی،ابھی تو ہم دیکھ رہے آزادامیدوار سیاسی جماعت ہیں یا نہیں۔
جسٹس یحیی آفریدی نے ریماکس میں کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں، لیکن ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد پارلیمانی پارٹی بن چکی؟۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں، ہر فیصلے نے آئین کو فالو کیا، کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں، پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی۔

مزیدخبریں