ویب ڈیسک: الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2024 میں امیدوار سلمان اکرم راجا کی خود کو آزاد امیدوار قرار دینے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے مقدمے کی سماعت کی۔
سلمان اکرم راجا کی جانب سے وکیل سمیر کھوسہ الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے، این اے 128 کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر نے معاملے پر رپورٹ بھی الیکشن کمیشن کو بھجوا دی۔
وکیل سمیر کھوسہ نے کمیشن کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے معاملہ سماعت کیلئے الیکشن کمیشن کو بھجوایا ہے، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ میں اپیل بھی فائل کی ہے۔
اس پر ممبر نثار درانی نے دریافت کیا کہ دو فورمز پر ایک درخواست پر کیسے سماعت کی جاسکتی ہے؟
چیف الیکشن کمشنر نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں سپریم کورٹ سماعت کرے یا الیکشن کمیشن؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ہم بیلٹ پیپرز کی تبدیلی یا الیکشن کا التوا نہیں چاہتے ہیں، سلمان اکرم راجا نے صرف آزاد حیثیت کو چیلنج کیا ہے، الیکشن کمیشن صرف فارم 33 میں ترمیم کر کے ان کی آزاد حیثیت ختم کرے۔
ممبر خیبر پختونخوا اکرم اللہ خان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ رول 94 کے مطابق سیاسی جماعت وہ ہے جس کو انتخابی نشان الاٹ کیا ہو، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابی نشان الاٹ نہیں ہوا اور سپریم کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھا، الیکشن کمیشن ایکٹ رول 94 میں ترمیم نہیں کر سکتا ہے۔
سکندر سلطان راجا نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہے تو الیکشن کمیشن کیسے اس پر فیصلہ کرسکتا ہے؟
وکیل سمیر کھوسہ نے دلائل دیئے کہ انتخابات 8 فروری کو ہونے ہیں،معاملے کی سنگینی سمجھتے ہوئے الیکشن کمیشن معاملہ دیکھے، رولز 94 امیدواروں کے انتخاب جیتنے کے بعد فعال ہوتا ہے، فارم 33 میں رولز 94 نہیں بنایا گیا، پاکستان تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ جماعت ہے۔
ممبر خیبر پختونخوا اکرم اللہ خان نے کہا کہ پی ٹی آئی قانونی طور پر انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی ہے۔
سمیر کھوسہ نے دلیل دیئےکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری پارٹی فہرست میں پی ٹی آئی کا نام شامل ہے، اس کا مطلب ہے کہ پارٹی فہرست پر نظرثانی کرنی چاہیے، پاکستان تحریک انصاف ختم نہیں ہوئی، ان کے پاس صرف انتخابی نشان نہیں۔
اس پر ممبر سندھ نثار دورانی نے دریافت کیا کہ کیا انتخابی نشان کے بغیر سیاسی جماعت ہوگی؟
وکیل نے جواب دیا کہ کسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے سیاسی فائدہ ہوتا ہے،آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت کوئی بھی سیاسی جماعت بنا سکتا ہے۔
ممبر نثار درانی نے مزید دریافت کیا کہ کیا کوئی سیاسی جماعت انتخابی نشان کے بغیر انتخابات لڑ سکتی ہے؟
سمیر کھوسہ نے بتایا کہ بالکل، سیاسی جماعت بغیر انتخابی نشان کے انتخابات میں حصہ لےسکتی ہے یہ اس کا آئینی حق ہے،الیکشن ایکٹ کے مطابق تحریک انصاف ابھی بھی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔
ممبر اکرم اللہ خان نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا اب بھی پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟ پی ٹی آئی نے 5 سال سے زائد عرصے سے الیکشن نہیں کروائے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ قانون کے مطابق پی ٹی آئی کی رجسٹریشن پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ممبر بلوچستان شاہ محمد جتوئی نے سوال اٹھایا کہ اب تو پارٹی میں کوئی عہدیدار نہیں تو ٹکٹ کیسے جاری ہوئے؟
وکیل نے جواب دیا کہ ٹکٹ جاری کرتے وقت پشاور ہائیکورٹ کے آرڈرز کے مطابق بیرسٹر گوہر خان چیئرمین تھے، ٹکٹ جمع کراتے وقت تحریک انصاف کے پاس پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود تھا۔
سمیر کھوسہ نے مزید بتایا کہ سلمان اکرم راجا نے کاغذات میں پارٹی پی ٹی آئی لکھی جبکہ فارم 33 میں ان کو آزاد امیدوار ظاہر کیا گیا، کسی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کیلئے وفاقی حکومت ریفرنس بھجواتی ہے، سپریم کورٹ ریفرنس کی بنیاد پر سیاسی جماعت تحلیل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
ممبر نثار درانی نے دریافت کیا کہ بیرسٹر گوہر چیئرمین پی ٹی آئی نہیں تو کس حیثیت میں الیکشن ٹکٹ جاری کئے؟
وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے قبل بیرسٹر گوہر نے بطور پارٹی چیئرمین ٹکٹ جاری کئے تھے۔
ممبر بابر حسن بھروانہ نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ الیکشن کمیشن سے اب چاہتے کیا ہیں؟
وکیل سمیر کھوسہ کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجا کو فارم 33 میں پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کیا جائے،سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کی، الیکشن کمیشن نے صرف پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھینا ہے، باقی سب حقوق موجود ہیں۔
کمیشن ممبر اکرم اللہ خان نے سوال کیا کہ پہلے تو ہم رائے دے دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے یا نہیں؟
سمیر کھوسہ نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، اگر الیکشن کمیشن نے رجسٹریشن ختم کرنی تھی تو بلے کے انتخابی نشان کے فیصلے میں کر دیتی۔
ممبر سندھ نثار درانی نے ریمارکس دیئے کہ آپ سپریم کورٹ جائیں اور وہاں یہ مدعا رکھیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ نہیں ٹھیک ہے ان کو دلائل دینے دیں، سکندر سلطان راجا نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بھی بار بار اپنے دلائل دہرا رہے ہیں۔
وکیل سمیر کھوسہ نے جواب دیا کہ میں دلائل دہرا نہیں رہا بلکہ بنچ کے سوالوں کے جواب دے رہا ہوں،الیکشن رولز الیکشن کمیشن کے بنائے ہوئے ہیں، آپ ہی معاملہ دیکھ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی درخوست گزار سلمان اکرم راجا کے وکیل سمیر کھوسہ کے دلائل مکمل ہوگئے۔
وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ جب پی ٹی آئی نظریاتی کا سرٹیفکیٹ دیا تو ریٹرننگ افسران کو امیدواروں کو نااہل کرنا چاہیے تھا۔
ممبر خیبر پختونخوا اکرم اللہ خان نے کہا کہ ہمارے پاس بھی پاور ہے کہ ہم ان کو نااہل قرار دے دیں، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ڈیکلیریشن کی خلاف ورزی سپریم کورٹ آرڈرز کی خلاف ورزی ہوگی۔
اس پر سپیشل سیکرٹری ظفر اقبال کا کہنا تھا کہ پارٹی کے پاس ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں تو نام کیسے لکھیں؟اس طرح تو الیکشن کمیشن کبھی فارم 33 جاری ہی نہیں کر سکے گا، ایک ایک حلقے سے پی ٹی آئی کے کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ امیدوار کو کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی ڈیکلیریشن بھی جمع کرانی ہوتی ہے، جس امیدوار کے پاس پارٹی کا انتخابی نشان نہیں وہ آزاد تصور ہوگا، نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا تو امیدواروں نے آزاد حیثیت میں سینیٹ الیکشن میں حصہ لیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں نےمطالبہ کیا کہ انہیں پی ٹی آئی نظریاتی کا نشان دے دیں،پی ٹی آئی نظریاتی کا نشان مانگنے پر آر او کو پی ٹی آئی امیدواروں کو نااہل کرنا چاہیے تھا، بیان حلفی کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کا آرڈر ہے کہ امیدوار نااہل ہوگا، بیلٹ پیپرز چھپ چکے ہیں اس وقت فارم 33 میں ترمیم نہیں کی جاسکتی۔
اسی کے ساتھ وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل بھی مکمل ہوگئے، بعد ازاں دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔