ایک نیوز: اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس میں چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ 3 سال ہوگئے ابھی تک کیس میں کوئی پراگرس نہیں ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں مدثر نارو سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔
لاپتہ مدثر نارو کا بیٹا اپنی دادی کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوا۔ لاپتہ افراد کے وکلا ایمان مزاری ، عمر گیلانی ، انعام الرحیم عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ وزارت دفاع کے نمائندے پولیس حکام بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ اس کے علاوہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ کابینہ نے 30 مئی 2022 کو عدالتی حکم پر لاپتہ افراد سے متعلق کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کے اب تک آٹھ اجلاس ہو چکے اور 60 فیصد کام ہو چکا ہے۔ کمیٹی لاپتہ افراد کی فیملیز سے ملی۔ اس میں مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ابھی ہوا کیا ہے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو پتہ ہے جو کام نا کرنا ہو اس پر کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔ آپ نے اپیل کیوں کی؟ لاپتہ افراد کدھر ہیں وہ بتائیں؟ چیف جٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سات ماہ پہلے کی سماعت پر بھی اٹارنی جنرل آفس سے کوئی نہیں آیا تھا۔ دوگل صاحب آپ کو کہہ رہے ہیں کمیٹی کمیٹی نا کھیلیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لاپتہ افراد کیسز متعلق ریاستی مشینری ناکام رہی ہے۔ ہمیں یہ بتائیں کہ لاپتہ افراد مار دیے ہیں یا ان لوگوں کو کس حال میں رکھا ہوا ہے؟
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 3 سال ہو چکے کوئی تھوڑی سی پراگرس بتا دیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ایف آئی آر کاٹیں۔ ہمیں کمیٹیوں کا نا بتائیں۔ ہمیں بتائیں یہ لاپتہ افراد کدھر ہیں؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کم از کم ہمیں یہ تو بتائیں لاپتہ افراد ہیں کہاں پر؟ فائل دیکھ کر بتائیں کوئی تھوڑی سی پراگریس ہے؟
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کردیا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ بیان حلفی دے دیں فلاں تاریخ کو بندے بازیاب ہو جائیں گے۔ کمیٹی کمیٹی کیا کرتے ہیں کمیٹی کیا کر لے گی؟ کمیٹی پارلیمنٹ کے کمرے میں بیٹھ کر چائے پی کر کہہ دے گی بہت برا ہوا۔ کس بنیاد پر ہم سے چاہتے ہیں سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیں؟
اس موقع پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اپنا تفصیلی اور تحریری جواب عدالت کو جمع کروا چکا ہوں۔ بہت وقت گزر گیا ہے ان کیسسز کا فیصلہ ہونا چاہیے۔
وزارت دفاع کے نمائندے کو جھوٹا کہنے پر حکام نے عدالت سے نوٹس لینے کی استدعا کردی۔ عدالت نے غیر متعلقہ زبان استعمال کرنے سے کرنل انعام ایڈووکیٹ کو روک دیا۔ عدالت نے کیس کی 8 مارچ تک کے لئے سماعت ملتوی کردی۔ عدالت نے چار ہفتوں میں تمام فریقین کو تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اور عدالتی معاون کو کچھ دیر سن لیں گے اور اس کیس میں فیصلہ دیں گے۔