ایک عام ڈاکٹر کو پولیس حکام کے تشدد نے انتہا پسند بنادیا

AYMAN ALZAWAHIRI
کیپشن: AYMAN ALZAWAHIRI
سورس: google

 ایک نیوز نیوز: ایمن الظواہری 19 جون 1951 کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں اور علما کے ایک قابلِ احترام گھرانے کا حصہ تھے۔

رپورٹ کے مطابق ایمن الظواہری کے دادا رابعہ الظواہری جامعہ ’الازہر‘ کے امام تھے۔  جبکہ ان کے ایک چچا عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ایمن الظواہری کے والد محمد ادویات سازی کے پروفیسر تھے جو1995 میں انتقال کرگئے تھے۔

 برطانوی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق ایمن الظواہری سکول کے زمانے سے ہی مذہبی سیاست میں شامل ہو گئے۔ انھیں 15 برس کی عمر میں مصر کی کالعدم قرار دی جانے والی قدیم ترین اور بڑی اسلامی تنظیم الاخوانِ المسلمون کا رکن بننے کے وجہ سے گرفتار کیا گیا۔قاہرہ میں طب کی تعلیم کے حصول کے دوران بھی ان کی سیاسی سرگرمیاں نہیں رکیں۔ انھوں نے 1974 میں گریجویشن کیا اور چار سال بعد سرجری میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔الظواہری نے پہلے تو خاندانی روایت کے مطابق قاہرہ ہی میں ایک طبی کلینک کھولا لیکن جلد ہی وہ ایک قدامت پرست اسلامی گروپ کی جانب متوجہ ہو گئے۔ یہ گروپ مصر کی حکومت کا خاتمہ چاہتا تھا۔ایمن الظواہری پیشے کے لحاظ سے آنکھوں کے سرجن تھے۔سنہ 1973 میں اسلامک جہاد کے قیام کے بعد وہ اس میں شامل ہو گئے

 انھوں نے مصر میں عسکریت پسند گروہ اسلامک جہاد کی بنیاد رکھنے میں مدد کی۔انھیں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کا نائب اور القاعدہ تنظیم کا مرکزی منصوبہ ساز سمجھا جاتا تھا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے انہی کے منصوبے کے تحت کیے گئے۔

سنہ 1981 میں مصری صدر انور سادات کے فوجی پریڈ کے دوران قتل کے بعد ایمن الظواہری سمیت تنظیم کے سینکڑوں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔صدر سادات کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے اور سینکڑوں ناقدین کی سکیورٹی کریک ڈاؤن میں حراست کے بعد اسلامی کارکن کافی ناراض تھے۔ان افراد کے خلاف قائم مقدمے کے دوران الظواہری ایک رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

جیل میں الظواہری کے ساتھ موجود قیدیوں کے مطابق حکام ان پر تشدد کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی تجربہ ان کے اندر پرجوش اور پرتشدد انتہا پسندی کے جذبات پیدا کرنےکی وجہ بنا۔

سنہ 1985 میں رہائی کے بعد الظواہری سعودی عرب چلے گئے۔ اس کے فوراً بعد ہی وہ پاکستان کے شہر پشاور آئے اور یہاں سے وہ ہمسایہ ملک افغانستان چلے گئے۔ سنہ 1993 میں اس گروہ کے دوبارہ یکجا ہونے کے بعد وہ اس کے سربراہ بن گئے۔ سنہ 1999 میں مصر کی ایک فوجی عدالت نے اس گروپ کی جانب سے کیے گئے متعدد حملوں میں اہم کردار ادا کرنے پر اُنھیں غائبانہ طور پر سزائے موت سنائی۔

  افغانستان سے سوویت انخلا کے بعد کے برسوں میں وہ بلغاریہ، ڈنمارک اور سوئٹزرلینڈ میں بھی رہے اور کبھی کبھی اُنھوں نے جعلی پاسپورٹس پر بلقان ممالک، آسٹریا، یمن، عراق، ایران اور فلپائن کا سفر بھی کیا۔1996 میں انہیں دورہ چیچنیا کے دوران روس میں گرفتار کر لیا گیا تاہم عربی دستاویزات کے ترجمے کی سہولت نہ ہونے پر وہ بآسانی رہا ہوگئے ۔

1997میں مصری اسلامک جہاد نے اسامہ بن لادن کی القاعدہ سمیت پانچ دیگر شدت پسند گروہوں کے اتحاد 'ورلڈ اسلامک فرنٹ' میں شمولیت اختیار کر لی جس کا مقصد 'یہودیوں اور صلیبیوں' کے خلاف جنگ کرنا تھا۔اس محاذ کا پہلا اعلان ایک فتوے کی صورت میں سامنے آیا جس میں امریکی شہریوں کے قتل کو مباح قرار دیا گیا تھا۔ چھ ماہ بعد کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بیک وقت حملوں میں 223 افراد ہلاک ہوئے۔

الظواہری ان لوگوں میں سے تھے جن کی ٹیلیفونک گفتگو سے یہ ثبوت ملا کہ اس حملے کے پیچھے القاعدہ اور اسامہ بن لادن تھے۔دو ہفتوں کے بعد امریکہ نے افغانستان میں اس گروہ کے تربیتی مراکز پر حملے کیے۔ 

الظواہری کو 13 جنوری 2006 کو پاکستانی سرحد کے قریب افغانستان کی حدود میں امریکی میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں القاعدہ کے چار ارکان ہلاک ہوئے تاہم الظواہری بچ گئے تھے۔حملے کے تین ہفتے بعد انھوں نے ایک ویڈیو کے ذریعے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’نہ تو وہ اور نہ ہی کرّہ ارض پر موجود کوئی اور طاقت انھیں جان سے مار سکتی ہے۔

8 جون 2011 کو اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک پیغام میں الظواہری نے کہا کہ ’اسامہ بن لادن مرنے کے بعد بھی امریکہ کو خوفزدہ کرتے رہیں گے۔اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی جنرل کمانڈ کی طرف سے جاری ہوئے ایک بیان کے مطابق اسامہ بن لادن کے نائب ایمن الظواہری کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔الظواہری امریکہ کی جانب سے دنیا کے مطلوب ترین افراد کی فہرست میں اسامہ کے بعد دوسرے نمبر پر تھے۔ ان کے سر کی قیمت ڈھائی کروڑ امریکی ڈالر لگائی گئی تھی۔