نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں کون کون شامل؟ تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش

نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں کون کون شامل؟ تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش
کیپشن: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف کیس کی سماعت آج ہو گی

ایک نیوز:نیب ترامیم سے رواں سال فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش  کر دی گئی،نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔

نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پرسماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی خصوصی بینچ کررہا ہے۔ بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منصورعلی شاہ شامل ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث دلائل دے رہے ہیں۔

 چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اجازت ہو تو وفاقی وکیل مخدوم علی خان سےایک بات پوچھوں، کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی۔ ایم ایل اے کےتحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کردی گئی، اب نیب کوخود وہاں سروسزلینا ہوںگی جومہنگی پڑیں گی۔ایم ایل اے کےعلاوہ بھی بیرون ملک سےجائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تواس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔نیب نےترامیم کے بعد ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آرکا بیرون ملک سےحاصل کردہ ریکارڈ قابل قبول شواہد کےطورپرنہیں پیش کیاجاسکتا، کیا آئین پاکستان میں شکایت کنندہ کے حقوق درج ہیں؟۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ آئین میں صرف ملزم کےحقوق اورفیئرٹرائل کے بارے میں درج ہے، آئین پاکستان شکایت کنندہ کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔ کل یہاں کہاگیاکہ نیب تحقیقات پراربوں روپےلگے، اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزاکی شرح 70فیصد سے کم ہے، ان میں سےبھی کئی مقدمات اوپرجاکر آپس میں طے ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ ڈیٹا دیکھ رہےہوتےہیں جوتشویش کی بات ہے،قتل کےمقدمات میں30 سے40 فیصد لوگوں کوانصاف نہیں ملتاجبکہ ریاست کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف دینا ہوتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کوشناخت کرنے سے انکارکردیتے ہیں۔ متاثرین کویقین ہی نہیں ہوتاکہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی تعاون کےذریعےملنے والےشواہد قابل قبول نہیں رہے۔

وکیل نے کہا کہ ایف بی آرکو بیرون ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہوجاتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آرکوملنے والی معلومات بطورثبوت استعمال نہیں ہوسکتیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ملزم سے برآمد ہونے والا مواد بھی نیب نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے،بیرون ملک سے لائے گئے شواہد بھی ثابت کرنا نیب کی ہی ذمہ داری ہے۔ عدالتیں شواہد کو قانونی طو رپر دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں۔ سوئس عدالتوں نےآصف زرداری کیخلاف اپنے ملک کےشواہد تسلیم نہیں کیے تھے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوئس مقدمات تو زائدالمعیاد ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے تھےعدم شواہد پرنہیں۔

وفاق کے وکیل کا کہناتھا کہ اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے معاونت کس قانون کے تحت مانگی تھی ،کوئی نہیں جانتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ نیب کی زیر حراست ملزم کو دباؤ میں لاکر پلی بارگین کرنے کا تاثر موجود ہے۔

وکیل چیئرمین پی ٹی آئی  نے کہا کہ یہ درست ہے کچھ مثالیں موجود ہیں جن میں دباؤ ڈال کر پلی بارگین کیا گیا۔ 

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ سندھ میں ایک کیس کی مثال موجود ہے،اس کیس میں پلی بارگین کرکے رقم طے کی گئی بعد میں تمام اثاثوں کا دوبارہ تخمینہ لگایا گیا، بتائیں پلی بارگین کی نیب شق میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ترامیم کے بعد پلی بارگین کے تحت اقساط میں وصول کی گئی رقم بھی واپس کرنا ہوگی۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کے قانون میں بیرون ملک سے قانونی معاونت کی گنجائش کتنی ہے؟ 

وکیل خواجہ حارث  نے کہا کہ پاکستانی قانون میں بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔ 

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے،ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پر مبنی فہرست ہے،بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے،ہمارے پاس جمعہ کی وجہ سے آج ساڑھے 12بجے تک کا وقت ہے۔

چیف جسٹس نےخواجہ حارث کو ساڑھے 12بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو وہ کچھ وقت لیں گے۔ 

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پیر تک وقت نہیں تحریری طور پر معروضات دے دیں ہم دیکھ لیں گے۔

چئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب پر دلائل شروع ہوگئے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ممالک سے باہمی قانونی تعاون کے ذریعے شواہد لیے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ بیرون ممالک سے حاصل کردہ شواہد کی کیا قانونی حیثیت ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ دفتر خارجہ کے ذریعے بیرون ملک سے شواہد لئے جاتے ہیں اور تصدیق کا ایک پورا عمل ہوتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کے قانون میں بیرون ملک سے قانون معاونت کی گنجائش کتنی ہے؟ 

وکیل خواجہ حارث  نے کہا کہ پاکستانی قانون میں بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔ 

نیب ترامیم سے رواں سال فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش  کر دی گئی ۔

7صفحات پر مشتمل رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ رواں سال30 اگست تک 12 ریفرنس نیب عدالتوں سے منتقل ہوئے،نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔

نیب رپورٹ  کے مطابق خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا، خواجہ انور مجید کے نیب مقدمات واپس ہوئے ،جعلی اکاؤنٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی کا کیس بھی نیب کے دائرہ کار سے نکل گیا۔

آصف زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس احتساب عدالت نے ترامیم کے بعد واپس کر دیا جبکہ اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کے خلاف نیب کیس بھی احتساب عدالت سے واپس ہوگئے۔

رواں سال مجموعی طور پر 22 مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے جبکہ ترامیم کی روشنی میں 25 مقدمات دیگر فورمز کو منتقل کر دیے گئے۔

احتساب بیورو کی جانب سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جاری نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جمع کرائی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دیئے کہ ایک منٹ کے لیے آپ کی بات درست مان لیں کہ ارکان پارلمینٹ نے خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے ترامیم کیں،کیا ہم نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیں؟اگر ہم کالعدم قرار بھی دیں تو کس قانون کے تحت نیب کے ترامیم کو کالعدم قرار دیں؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 9 کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے کیونکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون کا کاروباری شخصیات کیخلاف غلط استعمال کیا گیا،میرے پاس ایسے کاروباری شخصیات کے نام بھی موجود ہیں جن کو نقصان پہنچایا گیا، ایسے نہیں ہونا چاہیے کسی اکاؤنٹنٹ کو بٹھا کر 10روپے کی غلطی نکالی جائے،کسی جرم کی نوعیت تبدیل کرنا درست نہیں،کرپشن معاشرے اور عوام کیلئے نقصان دہ ہے۔آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کے بھی بنیادی حقوق ہیں،کیا ملزم کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری نہیں؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری قانون میں تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے،عوام ہمارے سامنے تو تب آئے گی جب انکے حقوق متاثر ہونگے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کی ترامیم اس انداز سے کی گئیں کہ ملزم اب پراسیکیوٹ نہیں ہو سکے گا۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ الزام لگا رہے ہیں کہ نیب ترامیم سے ریاست ملزم کے مفادات کا تحفظ کررہی ہے۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ کیا یہ نیب ریگولیٹری پر ترامیم کے ذریعے Captured ہے،کیا جو نیب کا ملزم ہے وہ قانون بنائےگا؟ کیا نیب کا ملزم قانون بنا کر بتائے گا کہ اس کے خلاف کارروائی کیسے ریگولیٹ ہو؟

 چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ حارث صاحب آپ مانیں کہ نیب کا غلط استعمال ہوتا رہا،کرپشن معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے،نیب ترامیم میں جرم کو ختم کرنا قانونی ہے یا غیر قانونی؟۔ 

جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دیئے کہ جواب یہ ہے کہ آئندہ پارلیمنٹ آئے گی تو نیب ترامیم پر دوبارہ غور کر لے گی،اگر پارلیمنٹرینز نے اپنے فائدے کے لیے قانون بنایا ہے تو آئندہ عوام ان کو منتخب نہیں کرے گی،انتخابات سر پر ہیں اور جمہوریت آئین کی بنیاد ہے،عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں ورنہ جمہوری نظام نہیں چل سکے گا،پارلیمانی جمہوری نظام آئین پاکستان کا مرکزی جزو ہے،کہا جا رہا ہے ایک پارلیمنٹ نے اپنے اور اہل خانہ کو فائدہ پہنچانے کیلئے قانون سازی کی،مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے زور لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جا رہی ہے،میرے ذہن میں ایک ہی حل ہے،نئی پارلیمنٹ آکر ترامیم کو ختم کردے۔

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تو ہم ایک چھٹی پر بھی نوٹس لے سکتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ دیکھنا یہ بھی ہوگا وہ چھٹی کس نے بھیجی،پارلیمنٹ کا فورم چھوڑ کر عدالت آنے سے نیک نیتی کا سوال تو آئے گا۔

وکیل خواجہ حارث نےکہا کہ وہ انکا سیاسی فیصلہ تھا وہ مستفعی ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں۔ بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی۔ملک میں کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر منفی ذرائع سے حاصل کردہ داغدار پیسہ ہے جس کے تحفظ کی خاطر سسٹم میں مخصوص لوگوں کو بچا لیا جاتا ہے۔ریاست کی ذمہ داری ہے منصفانہ و فیئر معاشرہ قائم کرے۔ ریاست نے یقینی بنانا ہے مجرمان آزاد نہ گھومیں۔ آج صورتحال یہ ہو گئی کہ معاشی مواقع چھیننے پر شہری ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتوروں کیلئے مختص کر دیا گیا۔ بنیادی حقوق کے براہ راست تعلق کا سوال اٹھا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ لوگ اپنے نمائندے کسی مقصد سے منتخب کرتے ہیں جو آئین میں درج ہے۔ دنیا بھر میں آمدن سے زائد اثاثوں کے اصولوں کا استعمال کم کیا جاتا ہے۔ ماضی نیب قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا، قانون سازی کے ذریعے سرکاری افسران کو نیب سے تحفظ فراہم کیا جاتا رہا۔ آڈیٹر جنرل اہم آئینی ادارہ ہے۔ مضبوط آڈیٹر جنرل آفس صوبوں کے اکاؤنٹس کو دیکھ سکتا ہے۔ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ نیب ترامیم سے بالواسطہ حقوق متاثر ہونے کا پہلو ضرور ہے۔ برا طرز یا مجرمانہ معاشرہ ہو گا تو لوگ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ نے نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت 5ستمبر تک ملتوی کر دی۔