ایک نیوز نیوز: مائرسارس راتھی ایک میٹر لمبا تھا اور یہ دو ٹانگوں پر دوڑتا تھا۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس دریافت کا تعلق ساروپوڈومورف قبیلے سے ہے جو کہ چار ٹانگوں پر چلتے تھے۔ اس ڈائناسار کے ڈھانچے کی دریافت سال 2017 اور 2019 میں زیمبیزی ویلی میں کھدائی کے دوران ہوئی تھی۔
زمبابوے میں نیشنل میوزیم اور مونومنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈارلنگٹن مونکوا کا کہنا ہے کہ ڈائناسار کے ارتقاء کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پاس بہت کم فوسلز ملتے ہیں۔ ایسے فوسلز جن کی میعاد 200 ملین سال سے زائد ہو پہلے ساؤتھ امریکا، بھارت اور اب زمبابوے سے ملے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ اس دریافت سے ڈائناسار کی ہجرت کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی جب تمام ملک ایک ہی خطے میں موجود تھے اور زمبابوے بھی ان کا حصہ تھا۔ زمبابوے جانتا ہے کہ یہاں پر مزید فوسلز مل سکتے ہیں، اسلیے اس حوالے سے مختلف مقامات پر کام کیا جاسکتا ہے تاہم یہ سب فنڈز کی موجودگی سے مشروط ہے۔
Zimbabwe dinosaur find hailed as Africa's oldest https://t.co/vQr84v4BUD
— BBC News (UK) (@BBCNews) September 1, 2022
کرسٹوفر گریفن ایک اور سائنسدان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈائنا سار شروع سے دنیا پر حکومت نہیں کررہے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمبابوے ساؤتھ امریکا اور بھارت پہلے ایک ہی خطہ تھے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ افریقہ سے دریافت ہونے والے تمام فوسلز میں یہ دریافت سب سے زیادہ پرانی ہے۔
یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن میں پلانٹولوجسٹ پروفیسر انوسویا چنسامی کا کہنا ہے کہ اس قبیلے کے بارے میں جاننے کے لیے یہ دریافت بہت اہم ہے۔ اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ دو مختلف براعظموں پر پائے جانے والے ڈائناسار ایک ہی قبیلے سے ہیں، جن کو خشکی کی بجائے گرم موسم کا سامنا تھا۔ انہیں امید ہے کہ اس علاقے سے مزید بھی کئی دریافت کی جائیں گی۔
ابھی دریافت ہونے والے ڈائناسار کا ڈھانچہ زمبابوے کے جنوبی شہر بولاوائیو کے میوزیم کے ایک کمرے میں رکھا گیا ہے۔