ایک نیوز :ایم کیو ایم کے کنوینئرخالد مقبول صدیقی کاکہناہے کہ ایم کیو ایم بکھری نہیں،نکھر رہی ہے۔
کنوینئرایم کیو ایم خالد مقبول صدیقی کا ملیر سعود آباد میں ورکرز کنونسن سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھاہم بتانے آئے ہیں کہ اس شہر کے لوگ غلام نہیں۔ہم الیکشن جیتنے نہیں دل جیتنے آئے ہیں۔یہ جلسہ انتخاب نہیں انقلاب کی تیاری نظرآرہاہے۔ہم واپس آگئے ہیں کراچی لاوارث نہیں۔ہم نے تعصب سے اندھے لوگوں کو 5سال پہلے کہا تھاکہ ایم کیو ایم ختم نہیں ہورہی۔ملیر میں اب فیصلے حق پرستی کی مرضی سے ہوں گے ۔اس ملک کو بنانے اور آزادی دلانے والے یہاں بیٹھے ہیں۔
خالد مقبول صدیقی کاکہنا تھا کہ انتخابات ہماری منزل نہیں،منزل تک پہنچنے کاراستہ ہے،ایم کیو ایم متحد ہے،عام آدمی کی نمائندہ جماعت ہے۔
ڈاکٹرفاروق ستار کاکہنا تھاکہ یہ تو طے ہے کہ آج ایم کیو ایم پاکستان اپنے انتخابی مہم کا آغاز کر رہی ہے۔ ملیر والے ضمیر والے، ملیر والے جرات والے ، ملیر والے ہمت والے ، تمام ٹاؤنز کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے تھے ہیں اور رہے گے ۔ پاکستان بنانے والوں کی موجودہ اولاد کو ہلکا نہ لو، ان کو حلوہ نہ سمجھو ، ان کے صبر کو اور زیادہ نہیں َآزماؤ، ایم کیو ایم ایک سیاسی قوت ہے ، اس کو کمزور تو دکھایا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک داستان ہے ارطغرل کی طرح، اس داستان کا پہلا سیزن 1984 سے 2016 تک کا تھا، ،دوسرا سیزن 2016 سے 2022 تک کا تھا،تیسرا سیزن جنوری 2023 سے شروع ہوا ہے جب خالد مقبول، مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار ایک ہیں۔
رہنما ایم کیو ایم فاروق ستار کامزیدکہنا تھاکہ مخالفین کی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کے خاتمہ کا دور ہے ۔وڈیروں اور جاگیرداروں کے منہ سے حقوق چھینے کا دور ہے۔ ایک نیشنل اسمبلی اور 3 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی بازیابی کا دور شروع ہوا۔ گمشدہ آبادی کی بازیابی کے دور کا آغاز ہوا۔
سینئر ڈپٹی کنوینئرمصطفی کمال کاکہنا تھاکہ تنظیمی طور پر ایم کیو ایم کے 29 ٹاؤن ہیں۔ آج کا جلسہ صرف ملیر ٹاؤن کا جلسہ ہے۔ہمارے پاس کرسیاں ختم ہو گئی ہیں۔ پاکستان کی پارٹیاں پورے سندھ کے لوگ بھی جمع کر کے اتنے لوگ جمع نہیں کر سکتے جتنا ایک ٹاؤن کے ایم کیو ایم نے جمع کئے ہیں۔ آج آنکھیں کھول کے دیکھو لوگوں کا سمندر ہے۔ ملیر ایم کیو ایم کا ہے، لوگوں کے ایڈوانس لئے پیسے اب ان کو واپس کرنے پڑے گے۔ 15 سال سے پی پی پی نے ایک قطرہ پانی نہیں دیا۔اربوں روپے کا پانی چوری ہوتا ہے۔ 40 سال پہلے کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کے لئے یہ جدوجہد شروع ہوئی تھی۔