فیض آباد دھرنا کیس میں وزارت دفاع اور انٹیلی جنس بیورو کی نظر ثانی درخواستیں خارج

Nov 01, 2023 | 11:38 AM

ایک نیوز :سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں وزارت دفاع اور انٹیلی جنس بیورو کی نظر ثانی درخواستیں خارج کردیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم پوچھ رہے ہیں فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟چیف جسٹس   کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ شامل ہیں۔بینچ نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی اور الیکشن کمیشن کی رپورٹ بھی مسترد کردی۔

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت 15 نومبر تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سماعت کا حکم نامہ لکھوایا جس کے مطابق وزارت دفاع اور آئی بی کی نظر ثانی درخواستیں واپس لینے کی بیناد پر خارج کی جاتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی نظر ثانی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔ پیمرا نے بھی نظر ثانی کی درخواست واپس لینے کی استدعا کی، پیمرا کے وکیل حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ انہیں سابق چیئرمین پیمرا کا جواب ابھی ملا ہے اور چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ ہم نے عمل درآمد رپورٹ جمع کرا دی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بیان حلفی جمع کرایا جس میں ایک انفرادی شخص اور انکے نامعلوم ماتحت اہکاروں پر سنگین الزامات عائد کیے۔ ابصار عالم نے جس انفرادی شخص پر الزام لگایا وہ ہمارے سامنے پیش نہیں ہے۔

حکمنامے کے مطابق اگر وفاقی حکومت کمیشن تشکیل دیتا ہے تو ابصار عالم نے کہا کہ وہ پیش ہوکر بیان دیں گے، ابصار عالم نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگایا اگر وہ جرح کرے تو بھی کارروائی کا حصہ بنوں گا۔ حکومتی تین رکنی کمیٹی مؤثر نہیں ہے، عدالت نے پوچھا کیا حکومتی تین رکنی کمیٹی کسی کو طلب کر سکتی ہے لیکن ہمیں اسکا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔

عدالتی حکمنامے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا وہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دیں گے، اٹارنی جنرل کو کمیشن کے قیام کیلئے وفاقی حکومت کو تجویز دینے کیلئے وقت فراہم کرتے ہیں، حکومت اگر رضامند ہوئی تو کمیشن بنا کر نوٹیفکیشن پیش کرے، کمیشن کے ٹی او آرز بلکل واضح ہونے چاہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا وہ حکومت سے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی سفارش کریں گے اور انہوں نے انکوائری کمیشن کے قیام کا نوٹیفیکیشن پیش کرنے کی مہلت مانگی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت فیصلہ تسلیم کرتی ہے اور عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔ حافظ ایس اے رحمان وکیل پیمرا سے پوچھا کہ کسی عدالتی فیصلے کے حصے پر عمل ہوا، حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ وہ دلائل نہیں دینا چاہتے۔

 حکم نامے کے مطابق ہم نے چیئرمین پیمرا سے پوچھا نظر ثانی دائر کرنے کا فیصلہ کس کا تھا، چیئرمین پیمرا نے متضاد جوابات دیے، پہلے کہا اتھارٹی نے نظر ثانی دائر کی پھر کہا زبانی اتھارٹی نے کہا تھا۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ دیکھ لیں۔ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابصار عالم یہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں بتایا گیا وہ راستے میں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ابصار عالم نے وزرات دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزام لگائے ہیں اور  کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چُکی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ وزرات دفاع سے متعلق ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ رپورٹ کس کو دے گی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی وزارت دفاع کو رپورٹ جمع کرائے گی، پہلا اجلاس 26 اکتوبر کو ہوچکا، کمیٹی رپورٹ عدالت میں بھی پیش کی جائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی ٹی او آرز کے ذریعے ہی تمام لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دے دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی فیصلے کے بعد ملک آئین پر چل رہا ہے؟ کیا آپ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ آج ملک آئین کے مطابق چل رہا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے پر آج تک عمل کیوں نہیں کیا گیا، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوئے اور واپس چلے گئے، دھرنا اچانک نہیں ہوا، مینج کون کر رہا تھا اور ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ کمیٹی رپورٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دیے کہ ہر کوئی بری ہو جائے گا، اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر سرکار کو کوئی پرواہ نہیں، ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعے کی انکوائری کرنی ہے، ہمارا کام حکم کرنا ہے آپ کا کام اس پر عمل کرانا ہے، کمیٹی ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ تحقیقات کس چیز کی کرنی ہیں؟ کیا تحقیقات سیلاب کی کرنی ہے یا کسی اور چیز کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کمیٹی کی منظوری کابینہ نے دی ہے؟ کمیٹی کا قیام کس قانون کے تحت ہوا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ واضح کریں کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے، کمیٹی کے قیام کی دستاویز صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے اور کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا، اگر ابصار عالم یا کوئی کمیٹی میں پیش ہونے سے انکار کرے تو کیا ہوگا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی اگر انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت بنتی تو شاید کچھ کر بھی سکتی، حکومت نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کچھ نہیں کیا، انکوائری کمیشن قانون کے تحت بنی کمیٹی کو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں، حکومت پھر صاف کہہ دے کہ اس نے کچھ نہیں کرنا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انکوائری ایکٹ کے تحت نیا کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کمیشن کے لیئے وفاقی حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ حکومت فیصلے پر عمل درآمد چاہتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی بالادستی ہر قیمت پر قائم کرنی ہوتی ہے، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ تاریخی ہے۔

سپریم کورٹ نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے کیخلاف پہلے نو نظرثانی درخواستیں آئیں پھر سب نے اچانک واپس لے لیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے شخص کو بھی کمیشن کا سربراہ بنا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نظرثانی دائر کرکے واپس لینا مذاق ہے؟ کون سا قانون کہتا ہے نظرثانی دائر ہوجائے تو فیصلے پر عمل نہیں کرنا؟ کیا ہماری حکومت نے کینیڈا کی حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ ایک شخص کینیڈا سے آتا ہے اور پورا ملک اوپر نیچے کرکے چلا جاتا ہے، کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل پر کتنا ردعمل دیا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم کینیڈا میں جا کر انکے پورے ملک کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں؟ کیا کینیڈا سے آنے والے نے ٹکٹ خود خریدی تھی؟ پاکستان کا اتنا ہی درد ہے تو یہاں آ کر کیوں نہیں رہتے؟ کینیڈا کی سرزمین پر قتل ہوا انھوں نے کہا ہماری سرزمین پر قتل ہوا، تحقیقات کریں گے، اس واقعے میں دونوں ممالک کے تعلقات ختم ہونے کا اندیشہ ہے، یہاں ملک اور دین اسلام کو بدنام کریں کوئی پوچھنے والا نہیں، یہاں کسی کو کوئی پرواہ نہیں، کیا فیض آباد دھرنے کا مقصد حکومت کے خلاف سازش تھی، اصلی مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب تک ملک آئین کے تحت نہیں چلے گا لوگوں کی مشکلات حل نہیں ہوں گی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنے کے وقت حکومت اچھی تھی یا بری تھی جیسی بھی تھی عوام کے ووٹ سے آئی تھی، قانون میں تبدیلی کو ختم کرنے کے باوجود فیض آباد دھرنا جاری رکھنا عیاں کرتا ہے مقاصد کچھ اور تھے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ریفرنس ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ایک وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم پاکستان انکوائری آف کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایسے بات نہ کریں، حکومت سے ہدایات لیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آئندہ کے لیے مثال ہونی چاہیے کہ اگر ایسا ہوا تو سنگین نتائج ہوں گے، ابصار عالم کے بیان حلفی کے تناظر میں تو پھر الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے آزاد نہیں تھے، کیا کوئی پاکستانی کینیڈا جاکر احتجاج کر سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لیکن کینیڈا سے تو کوئی یہاں آکر نظام مفلوج کر سکتا ہے، کینیڈا والے کو پاکستان کون لیکر آیا تھا۔

سپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا کو فوری طلب کرلیا۔ چیئرمین پیمرا کو ابصار عالم کے بیان حلفی کے حوالے سے طلب کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہماری حکومت نے کینیڈا کی حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ ایک شخص کینیڈا سے آتا ہے اور پورا ملک اوپر نیچے کرکے چلا جاتا ہے، کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل پر کتنا ردعمل دیا ہے، کیا ہم کینیڈا میں جا کر انکے پورے ملک کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں؟ کیا کینیڈا سے آنے والے نے ٹکٹ خود خریدی تھی؟ پاکستان کا اتنا ہی درد ہے تو یہاں آ کر کیوں نہیں رہتے؟

عدالت نے پیمرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ پیمرا کے سابق چیئرمین کا بیان حلفی پڑھا ہے؟ حافظ ایس اے رحمان نے بتایا کہ ابصار عالم کا بیان حلفی مجھے ابھی ملا ہے، جس پر عدالت نے سینیئر وکیل حافظ ایس اے رحمان پر اظہار برہمی کیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو بیان حلفی گھر جا کر دیتے؟

عدالت نے ڈی جی آپریشنز پیمرا کو روسٹم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے کالا کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے؟ کیا آپ وکیل ہیں؟ ڈی جی آپریشنز نے جواب دیا کہ کالا رنگ روٹین میں پہنا ہے۔

چیف جسٹس کا چیئرمین پیمرا اور ان کے وکیل پرشدید برہمی کا اظہار
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ”فلاں کومارو ، فلاں کو آگ لگا دو“ یہ فریڈم آف سپیچ نہیں،
آپ کس چیز کے چیئرمین ہیں، ہر ادارہ مذاق بن کے رہ گیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں ہربندہ کرسی سے اترنے کے بعد کہتا ہے مجھ پر دباؤ تھا، سب بڑا مسئلہ ہی یہ ہے، بتائیں نشریات بند کرنے والے کیبل آپریٹرز کیخلاف کیا کارروائی کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی فیصلے پرعمل نہیں کرنا چاہتے، آپ کے یہ کیسے وکیل ہیں جو اپنے موکل کو درست گائیڈ نہیں کرتے۔

چیئرمین پیمرا کے وکیل نے وکالت نامہ واپس لے لیا
چیف جسٹس کی برہمی کرنے پر پیمرا کے وکیل ایس اے رحمان نے وکالت نامہ واپس لے لیا، اور روسٹرم سے ہٹ گئے۔

چیئرمین پیمرا سچ بولنے سے قاصر ہیں
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین پیمرا سچ بولنے سے قاصر ہیں، پیمرا قانون کے مطابق بورڈ کے فیصلے تحریری ہوں گے زبانی نہیں، کیا چیئرمین پیمرا نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیوں نہ نظرثانی درخواست بھاری جرمانے کے ساتھ خارج کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین پیمرا کوعلم ہی نہیں نظرثانی کیسے دائر ہوئی تھی، سلیم بیگ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے، آپ نےغلط بیانی کیوں کی کہ آپ کی تعیناتی بعد میں ہوئی، کیا آپ کو فیصلہ پسند نہیں تھا، آپ فیصلے پرعمل نہیں کرتے تو توہین عدالت بھی ہوسکتی ہے۔

اسکول میں ایسے جواب پر استاد کونے میں کھڑا کردے گا
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے سوال کیا کہ چیئرمین پیمرا کی مدت ملازمت کتنی ہے۔ جس پر سلیم بیگ نے بتایا کہ 4 سال کی مدت ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ پھر آپ کیسے اب تک بیٹھے ہیں۔ جس پر چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے بتایا کہ دوبارہ تعیناتی کی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے۔ جس پر چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے بتایا کہ اس وقت عمر 63 سال ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس وقت کا کیا مطلب ہے، آج کی عمر ہی پوچھی ہے کل کی نہیں، اسکول میں کوئی ایسا جواب دے تو استاد کونے میں کھڑا کر دے گا۔

شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ رشید سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ میں چلے سے واپس آ گیا۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے کہا کہ ہم شیخ رشید کی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شیخ رشید آپ سے رابطے میں نہیں تو درخواست واپس لینے کا کس نے کہا؟ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے کہا کہ مجھے شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی نے ہدایات دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امان اللہ کنرانی اب وزیر ہیں وہ آپ کو ہدایات نہیں دے سکتے، آپ کب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ہیں آپ کا لائسنس منسوخ نہ کر دیں، شیخ رشید کا کسی کو پتہ ہے کیا وہ جیل میں ہیں، شیخ رشید یہاں کیوں نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ شیخ رشید میڈیا پر آ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  میڈیا تو یہاں بیٹھا ہوا ہے، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کا ان سے رابطہ نہیں تو درخواست واپس کون لے رہا ہے؟ ہم اس میں نوٹس جاری کریں گے۔

سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواست واپس لینے کے معاملے پر شیخ رشید کو نوٹس جاری کر دیا۔

حکمنامے کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے شیخ رشید کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔شیخ رشید کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے کہا ان  کا رابطہ نہیں۔ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے درخواست واپس لینے کا بھی کہا جو متضاد بات تھی۔شیخ رشید کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی درخواست کی پیروی کریں۔

اعجاز الحق نے عدالتی فیصلے میں حساس ادارے کی رپورٹ کی تردید کر دی۔ 

اعجازالحق کے وکیل نے کہا کہ بیان حلفی کے مطابق مظاہرین کی کوئی حمایت نہیں کی تھی، اعجاز الحق اور مظاہرین کے درمیان گٹھ جوڑ کی کوشش جھوٹ پر مبنی ہے، اعجاز الحق نظرثانی کے بجائے اپنی ساکھ خراب کرنے پر دادرسی چاہتے ہیں، آئی ایس آئی نے اعجاز الحق کا نام غلط طور پر شامل کیا۔ 

الیکشن کمیشن کے وکیل کو روسڑم پر بلا لیا گیا 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تو ایک آزاد ادارہ ہیں، کیا الیکشن کمیشن نے ایک فضول نظرثانی دائر کی جو اب واپس لینی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ اس وقت الیکشن کمیشن کا سربراہ کون تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ سردار رضا اس وقت چیف الیکشن کمشنر تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جسٹس سردار محمد رضا؟ الیکشن کمیشن نے اب عملدرآمد رپورٹ دی ہے اس میں کیا ہے؟ دکھائیں کیا عملدرآمد کیا گیا؟ آج کل وکالت کم لفاظی زیادہ ہو رہی ہے۔ 

حکم نامہ کے مطابق الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ تحریک لبیک نے کچھ فنڈز فراہم کرنے والوں کی تفصیل مہیا نہیں کی۔حیران کن ہے اس کے باؤجود الیکشن کمیشن کو کچھ غیر قانونی نہیں لگا۔الیکشن کمیشن نے پندرہ لاکھ کی فنڈنگ کی پی نٹ کہا۔الیکشن کمیشن نے معاملے کا قانون کے مطابق دوبارہ جائزہ لینے کی مہلت مانگی۔الیکشن کمیشن نے تین ماہ کی مہلت مانگ لی۔

حکمنامہ کے مطابق الیکشن کمیشن کو ایک ماہ کی مہلت دی جاتی ہے۔آپ یہ سب الیکشن سے پہلے پہلے کریں۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی عملدرآمد رپورٹ خارج کردی۔

چیف جسٹس نے ٹی ایل پی رہنماؤں کے ساتھ حافظ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا:

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کو تحریک لبیک کے ذمہ داروں کے ساتھ حافظ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک آئینی ادارے میں انہیں حافظ کیوں کہہ رہے ہیں؟ آپ لوگوں سے مساوی سلوک نہیں کرتے۔ آپ نے عملدرآمد رپورٹ میں جو کچھ لکھا وہ فیصلے سے پہلے کا ہے، ہمارے فیصلے کے بعد کیا اقدامات لئے وہ بتائیں، فارن فنڈنگ سے متعلق بتائیں آپ نے کیا لکھا، رپورٹ میں تو آپ فارن فنڈنگ کا مان رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں 15 لاکھ فارن فنڈنگ سے آئے یہ تو معمولی رقم ہے، آپ نے 15 لاکھ کی رقم کیلئے پینٹ کی اصطلاح استعمال کی،کیا یہ کوئی قانونی اصطلاح ہے۔ 

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اس وقت کپ فنڈ 50 لاکھ سے کچھ زیادہ تھے،یہ تو 30 فیصد رقم بن جاتی ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ بیرون ملک سے جو انفرادی طور رقوم بھیجی جائیں وہ ممنوعہ نہیں۔ 

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ درست ہے صرف کسی دوسرے ملک کی حکومت یا کمپنی سے آئے فنڈز ہی ممنوع ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی ممنوع فنڈز پائے جائیں تو وہ ضبط ہی ہوں گے۔ 

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ الیکشن کمیشن کی نہیں کسی اور کی وکالت کر رہے ہیں، ہمیں لگا تھا آئینی ادارہ کہے گا ہم سے غلطی ہوئی یہ تو کسی کے دفاع میں بیٹھا ہوا ہے، آپ نے انہیں کہا تھا کہ 15 لاکھ بھیجنے والے کا نام بتائیں، رقم بھیجنے والے نے اگر کہا تھا کہ اس کا نام ظاہر نہیں کرنا تو وہ رقم واپس کر دیتے، پاکستانی قانون تو ایسی رقم لینے کی اجازت نہیں دیتا، تحریک لبیک کو آئی فنڈنگ کی تفصیل میں ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں، ظاہر ہوتا ہے یہ فنڈز بیرون ملک سے ہی آئے تھے جو کرنسی تبدیل کر کے ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں بنا۔ 

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اگر جوئی 1820 روپے دینا چاہتا ہے تو ہم اسے نہیں کہہ سکتے کہ پورے 1800 دو، وقت دیا جائے تو ہم اس کا جائزہ لیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آپ نے عملدرآمد نہ کیا تو بتائیں ہم کیا کریں گے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ ہم عملدرآمد نہیں کریں گے۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ایک آئینی ادارہ ہے میرا خیال ہے انہیں ادراک ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی عجیب حسن اتفاق ہے کہ ایک ہی دن آئینی اداروں نے نظرثانی درخواستیں دائر کیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ چار سال بعد نظرثانی درخواست مقرر ہوئی۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اچھا آپ اس حسن اتفاق پر شعر ہی سنا دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بات نکلے گی تو بڑی دور تلک جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نہیں کہتے کہ فلاں کو جیل میں ڈال دو فلاں پارٹی پر پابندی لگا دیں۔

الیکشن کمیشن کی عملدرآمد رپورٹ مسترد
چیف جسٹس نےالیکشن کمیشن کی عملدرآمدرپورٹ مسترد کردی اور ریمارکس دیئے کہ یہ فائل آپ واپس لے جائیں اور بتائیں آپ نے قانون پرعمل کیا، ہمارے فیصلے کو بھول جائیں اپنا قانون دیکھ کربتائیں۔

راتوں رات سیاسی جماعتیں کیسے رجسٹر ہو جاتی ہیں
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے ٹی ایل پی رجسٹر کرانے والے شخص کو بلایا، ٹی ایل پی رجسٹریشن کرانے والا شخص تو دوبئی میں رہتا ہے۔ وکیل قمر افضل نے جواب دیا کہ ٹی ایل پی کو بلایا تھا رجسٹر کرانے والے کو نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اس طرح کام کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ راتوں رات سیاسی جماعتیں کیسے رجسٹر ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں پاکستان میں اوپر سے حکم آتا ہے کچھ کہتے ہیں پہیے لگ جاتے ہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا بیرون ملک رہنے والا سیاسی جماعت رجسٹر کروا سکتا ہے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ بیرون ملک رہنے والوں کے پارٹی رجسٹرکرانے والوں پرپابندی نہیں، سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے 2 ہزار شناختی کارڈ لازمی ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ٹی ایل پی والوں کے 2 ہزار شناختی کارڈ کہاں ہیں، ان کی پارٹی رجسٹریشن کا ریکارڈ کہاں ہے، الیکشن ایکٹ 2017 پرعملدرآمد کا ریکارڈ کہاں ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹی ایل پی کی فارن فنڈنگ کی تحقیقات کی ہیں، معمولی رقم باہر سے ملی تھی جسے فارن فنڈنگ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے فارن فنڈنگ توہے لیکن بہت معمولی سی، میرے لیے تو 15 لاکھ روپے بڑی رقم ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر 10 روپے بھی فارن فنڈنگ آئیں تو قانون کیا کہتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پہلے کہا قانون کاسمیٹک ہے اب کہتے ہیں فنڈنگ پینٹس ہیں۔

مزیدخبریں