ایک نیوز نیوز: سندھ ہائیکورٹ میں کم عمر بچی کی لاہور جاکر پسند کی شادی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ۔ جس میں دوران ماہر نفسیات نے کہا کہ انہیں پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا کی جانب سے قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں کم عمر بچی کی لاہورجاکرپسند کی شادی سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی۔ لڑکی کا معائنہ کرنے والی ماہر نفسیات فاطمہ ریاض نے رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔فاطمہ ریاض نے عدالت کے روبرو کہا کہ مجھے لڑکی کا معائنہ کرنے کیلئے کہا گیا تھا لیکن مجھے صوبائی وزیر شہلا رضا کی جانب سے قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
فاطمہ ریاض نے کہا کہ کہ شہلا رضا کی جانب سے پہلے لڑکی کے والد کے ذریعے مجھے 5 ہزار روپے دیئے گئے۔ لڑکی کے والدین کے گھر چائے پر بلایا گیا جس میں مجھے نشہ آور چیز ملا کر دی گئی جس کی لیباریٹری ٹیسٹ میں تصدیق بھی ہوئی ہے۔
دوسری جانب شہلا رضا نے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹر فاطمہ ریاض کو نہیں جانتی ہیں ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔
ڈاکٹر فاطمہ ریاض نے الزام عائد کیا کہ مجھے ذہنی طور پر بیمار کرنے کیلئے ادویات دی بھی گئی تھی۔ جس کی انہوں نے میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی۔
سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے سیکرٹری سے کہا کہ اگرڈاکٹرفاطمہ ریاض کو قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں تو کسی اور کی ذمہ داری لگاتے۔
لڑکی کے والد کےوکیل نے عدالت سے سینئرز ڈاکٹرز پرمشتمل میڈیکل بورڈ بنانے کی استدعا کی ہے۔
ڈاکٹرفاطمہ ریاض نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہیں چائے میں نشہ آور اشیاء گھول کر پلائی گئی تھی۔ میں ایف سی پی ایس کی تصدیق شدہ ماہرِنفسیات ہوں مگر مجھےاتنا زیادہ نشہ پلادیا گیا کہ عجیب وغریب باتیں کر رہی ہوں۔
ڈاکٹرفاطمہ ریاض نے انکشاف کیا کہ میں نے شک کی بنیاد پر اپنا ٹیسٹ کروایا تھا جس سے ثابت ہوا کہ مجھے بہت زیادہ نشہ دیا گیا تھا۔ڈاکٹر کا کہنا تھا والدین نے مجھے سوٹ دیا تھا کہ ہم سید ہیں اس لیے کوئی پہلی بار ہمارے گھرآتا ہے تو اسےسوٹ اور پیسے دیتے ہیں۔ جو میں نے اس وقت ان کے مذہبی جذبات کے پیش نظررکھ لیے تھے اور آج عدالت کو واپس کردیے۔
پس منظر
نوعمر لڑکی کی اپریل کے وسط میں کراچی میں اپنے گھر سے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی تھی۔ جس کے بعد پولیس کو اس کا سراغ بہاولنگرسے ملا اورعلم ہوا کہ اس کی شادی 21 سالہ ظہیر احمد سے ہوچکی ہے۔ جس سے اس کی ملاقات مقبول آن لائن گیم PUBG کھیلتے ہوئے ہوئی تھی۔
اس جوڑے کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا۔ جہاں عدالت نے فیصلہ دیا کہ نوعمر لڑکی کو شیلٹر ہوم میں بھیجنے سے پہلے وہ جس کے ساتھ چاہے رہ سکتی ہے۔ جس کے بعد لڑکی کے والدین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے مدعیان کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کے بعد کیس نمٹا دیا تھا۔