سپریم کورٹ ازخود نوٹس تحریری فیصلے میں 2 ججوں کا اختلافی نوٹ شامل

سپریم کورٹ ازخود نوٹس تحریری فیصلے میں 2 ججوں کا اختلافی نوٹ شامل
کیپشن: Supreme Court automatic notice written judgment including dissenting note of 2 judges(file photo)

ایک نیوز: سپریم کورٹ نے انتخابات کی تاریخ دینے کے معاملے پر ازخود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ فیصلے میں دو ججوں کا اختلافی نوٹ بھی شامل کیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق فیصلے سے جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کیا ہے۔ اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ہم اپنے دو ساتھی ججوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی جاتی ہیں۔ جسٹس مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ از خود نوٹس جلد بازی میں لیا گیا۔ ‏جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ کے 23 فروری کے نوٹ سے متفق ہیں۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات از خود نوٹس کیس اور پی ٹی آئی کی آئینی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات از خود نوٹس کیس اور پی ٹی آئی کی آئینی درخواستیں مسترد کرتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔ جس میں لکھا گیا ہے کہ پہلے سے 2 درخواستیں موجود تھیں۔ پہلے سے موجود درخواستوں کو جلدی سننے کی کوشش کی گئی۔ ظہور الہٰی اور بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلے اس بارے میں واضح ہے۔ جب ایک درخواست موجود ہو تو پھر اس کیس میں جلدی نہ ہو۔

اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ منظور الہٰی اور بے نظیر کیس کے مطابق از خود نوٹس لینا نہیں بنتا۔ 90 روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ ایک ایپکس کورٹ ہے اس کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کی ایسی مداخلت صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے۔ 23 فروری کو جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہرمن اللہ نے جو نوٹ دیا اس پر ہم مطمئن ہیں۔