ایک نیوز: مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کے کسی میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 120 دن میں ایکشن لینا تھا، اگر الیکشن کمیشن نے ایکشن نہیں لیا تو بس پھر نہیں لیا۔عدالت نے کیس کی سماعت 8 مارچ تک ملتوی کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر نااہلی کی درخواست پر سماعت مقرر کردی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سماعت کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر لارجر بنچ میں شامل ہیں۔
درخواست گزار کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کے وکیل سلمان اسلم بٹ کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ میں درخواست گزار کے وکیل کے طور پر پیش ہوا ہوں۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عمران خان نے متفرق درخواست دائر کی ہے جس پر اعتراض عائد کیا گیا۔ ہمارا مقصد دستاویزات عدالتی ریکارڈ پر رکھنا ہے۔ نادرا نے بائیومیٹرک تصدیق سے انکار کر دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کسی دوکان پر چلے جائیں وہاں بائیومیٹرک ہو جائے گا۔ عمران خان کے وکیل نے گزشتہ سماعت پر اعتراض اٹھایا تھا۔ عمران خان کے وکیل کا موقف ہے کہ قومی اسمبلی کے رکن نہیں ہیں۔ عمران خان کے رکن قومی اسمبلی نہ ہونے پر درخواست قابل سماعت نہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عمران خان کو نااہل قرار دیا جائے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان قومی اسمبلی کے ممبر نہ ہوں تو کیا صورتحال ہو گی؟ اس پر وکیل نے کہا کہ عمران خان اب بھی ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ عمران خان کو میانوالی کی نشست سے نااہل قرار دیا گیا۔ عمران خان نے قومی اسمبلی کی مزید سات نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ الیکشن جیتے کے بعد کامیاب امیدوار ممبر قومی اسمبلی بن جاتا ہے۔ عمران خان حلف نہ اٹھا کر بھی ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ اسمبلی میں بیٹھنے اور ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے حلف لینا پڑیگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حلف اٹھانے کیلئے کوئی مدت متعین ہے؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ قانون حلف لینے کیلئے کوئی مدت مقرر نہیں کرتا۔ چوہدری نثار طویل عرصے تک حلف نہ لے کر بھی ممبر صوبائی اسمبلی رہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسحاق ڈار کے حلف سے متعلق معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے سامنے آیا تھا۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو اسحاق ڈار کے حلف سے متعلق ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اسحاق ڈار کے حلف سے متعلق فیصلہ عدالت کے سامنے پیش کریں۔
اس موقع پر درخواست گزار محمد ساجد کے وکیل نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے پیش کیے۔ وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ حلف پارلیمنٹ میں آفیشل ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے ضروری ہے۔ جب کسی ممبر کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہو جائے تو اس کو مراعات ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کے وکیل کے اٹھائے اس نقطے پر بھی آگاہ کرنا ہے۔ درخواست گزار کا کیس ہے کہ عمران خان نے کاغذات نامزدگی میں درست معلومات فراہم نہیں کیں؟
حامد علی شاہ نے دوران سماعت اپنے ہی لکھے پرانے فیصلے کا حوالہ دیدیا۔ چیف جسٹس نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپ کا ہی فیصلہ ہے۔ چیف جسٹس کی نشاندہی پر کمرہ عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں امیدوار کیلئے بیان حلفی جمع کرانے کی شرط رکھی تھی؟
وکیل نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل کے پاس غلط معلومات ملنے پر الیکشن کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں ایسا نہیں ہوا، اس الیکشن کو تو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو نااہل نہیں کر سکتا۔ فیصلے کیمطابق اہلیت دیکھنے کا اختیار ہائیکورٹس اور عدالتوں کا ہے۔ اس فیصلے کو بھی دیکھ لیں گے۔ حبیب اکرم کیس میں سپریم کورٹ نے بیان حلفی کاغذات کا حصہ بنایا۔فیصلے کے مطابق زیر کفالت بچوں کی تفصیلات بتانا لازم تھیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہ اکہ الیکشن ایکٹ کے مطابق یہ تفصیلات لازم نہیں ہیں۔ اثاثوں کی فہرست میں بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات بتانی ہیں۔ اس اعتبار سے ڈائریکٹ نہیں مگر اِن ڈائریکٹ طور پر بچوں کی تفصیلات لازم ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر تفصیلات غلط جمع کرائی گئی ہوں تو الیکشن ایکٹ کیا کہتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق اگر تفصیلات غلط ہوں تو یہ کرپٹ پریکٹس میں آئے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غلط تفصیلات پر الیکشن کمیشن نے 120 دن کے اندر ایکشن لینا ہوتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے ایکشن نہیں لیا تو پھر بس نہیں لیا۔
سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمران خان کے خلاف موجودہ درخواست انہیں ایک اے 95 سے ڈی سیٹ کرنے کی تھی۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہماری درخواست میں کسی بھی پبلک آفس سے متعلق لکھا گیا ہے۔ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ یہ درخواست نہیں ہو سکتی کہ وہ شخص کبھی کوئی پبلک آفس ہولڈ نہ کرے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق پارٹی سربراہ کو پبلک آفس ہولڈر تصور کیا جائے گا۔ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ نہیں جی ایسا نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ راجا صاحب، تحمل کریں، ان کی بات بھی سن لیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان کے سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے پر بھی کیس قابل سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ الیکشن ٹربیونل میں تو نہیں گیا؟ وکیل نے دلائل میں کہا کہ ٹربیونل میں گیا لیکن وہاں میرٹ پر فیصلہ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف دو ریفرنسز مسترد کر چکا ہے؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف ریفرنس تکنیکی بنیادوں پر خارج کیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر بیان حلفی غلط ثابت ہوتا ہے تو اسکے کیا نتائج ہونگے؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ غلط بیان حلفی پر 62 ون ایف لگتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے فیصل واوڈا کیس موجود ہے، اس کو دیکھ لیجئے گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست گزار کے وکیل کو بدھ اور جمعرات کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 مارچ تک ملتوی کردی۔