فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہے آزاد امیدوار بنا دے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ:مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت براہ راست جاری 
کیپشن: Supreme Court: The hearing of the case related to specific seats continues directly

ایک نیوز: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13رکنی فُل کورٹ   نے کیس کی سماعت کی ،الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر کے دلائل کا آغاز کیا ۔ 

وکیل سکندربشیر نے کہا کہ میں تیس منٹ میں دلائل ختم کردوں گا، چار نکات پر بات کروں گا،سپریم کورٹ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر موجود ہیں، تحریک انصاف نے پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 جاری کیے، پی ٹی آئی کے پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 چیئرمین پی ٹی آئی گوہرعلی خان نے دستخط کیے، جب پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 جاری ہوئے تو تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروائے تھے۔  

جسٹس جمال مندو خیل نے وکیل سکندر بشیر سے استفسار کیا بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزادامیدوار ہے، پی ٹی آئی نے فارم66، 22 دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ 13 جنوری کو جاری کیے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ تو کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہئے تھے۔ 

جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفیکیٹ منسلک ہیں،جس پر وکیل سکندر بشیر نے کہا الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا جو پہلے آیا، اس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا آپ کہہ رہے کہ سرٹیفیکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئر مین تحریک انصاف کا منتخب نہیں ہوا تھا؟ وکیل سکندربشیرنے جواب دیا  سرٹیفیکیٹ جمع کرواتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئےتو کاغذات نامزدگی درست نہیں، کاغذات نامزدگی میں حامدرضا نے سنی اتحادکونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامدرضا نے بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا،سپریم کورٹ حامدرضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور خود کو سنی اتحادکونسل کا امیدوار کہا، حامدرضا نے کاغذات نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامدرضا نے پارٹی سے وابستگی 13 جنوری کو جمع کرایا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے یعنی الیکشن کمیشن کی تاریخ سے قبل پارٹی سے ڈیکلریشن دنی چاہیے، نشان بعد کی بات ہے، وکیل سکندر بشیر نے کہا حامدرضا کا ہر دستاویز ان کے پچھلے دستاویز سے مختلف ہے، 

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا حامدرضا کو سنی اتحادکونسل کا سرٹیفیکیٹ دینا چاہیے تھایا آزادامیدوار کا؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا حامدرضا کو سنی اتحادکونسل کا سرٹیفیکیٹ جمع کروانا چاہیے تھا۔ 

جسٹس محمدعلی مظہرنے کہا ڈیکلریشن میں تو حامدرضا نے خود کو تحریک انصاف کا ظاہرکیا نہ کہ آزادامیدوار، جسٹس شاہد وحید حامد نے استفسار کیا حامد رضا کو آزاد امیدوار قرار دینے سے پہلے کیا ان سے وضاحت مانگی گئی تھی؟ جس پر وکیل الیکشن کمشین نے جواب دیا حامد رضا نے درخواست دے کر شٹل کاک کا انتخابی نشان مانگا تھا، ریکارڈ میں پارٹی ٹکٹ نظریاتی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی میں تضاد پر کوئی نوٹس کیا گیا تھا؟وکیل سکندر بشیر نے کہا  ریٹرننگ افسر سکروٹنی میں صرف امیدوار کی اہلیت دیکھتا ہے انتخابی نشان کا معاملہ نہیں، حامد رضا خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار قرار نہیں دینا چاہتے تھے، حامد رضا ایک سے دوسری جماعت میں چھلانگیں لگاتے رہے،الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 دسمبر، 10 جنوری کو پشاور ہائیکورٹ، 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، 8 فروری کو تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر 7 فروری کو بھی تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کا بتا دیتے تو کچھ ہوسکتا تھا۔  

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیئے 14جنوری سے 7 فروری تک تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کرا سکتی تھی، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ انٹراپارٹی انتخابات ہوتے بھی تو کیا فرق پڑنا تھا؟ جس پر وکیل سکندر مہمند نے جواب دیا پی ٹی آئی کو انتخابی نشان مل جاتا اور وہ انتخابات کیلئے اہل ہوجاتی۔ 

جسٹس عائشہ ملک نے کہا اس صورتحال میں تو انتخابی شیڈیول ہی ڈسٹرب ہوجاتا، جسٹس منیب اختر نے سوال کیا پی ٹی آئی کو اتنی خاص رعایت کس قانون کے تحت ملنی تھی؟ چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا پی ٹی آئی انتخابات کا معاملہ کئی سال سے الیکشن کمشین میں زیرالتواء تھا، الیکشن کمیشن 13 جنوری کا حوالہ دے کر معاملہ سپریم کورٹ پر کیوں ڈال رہا ہے؟جسٹس منیب اختر  نے کہا پارٹی انتخابات تو ہوچکے تھے معاملہ ان کی قانونی حیثیت کا تھا۔ 

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا آرٹیکل 218(3) کے تحت پی ٹی آئی کو رعایت دے سکتے تھے، میری اردو کچھ کمزور ہے، صاحبزادہ کو شہزادہ کہہ دیتاہوں،وکیل سکندربشیر کو پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کا صحیح نام لینے میں دشواری کا سامنا۔ 

وکیل سکندربشیر  نے کہا کنول شوزب کی درخواست پر سماعت نہیں ہونی چاہئے ، فیصلے سے متاثر نہیں ہوتیں، کنول شوزب تحریک انصاف میں ہیں، خواتین ورکرز ونگ کی سربراہ ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک  نے کہا ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے درخواست میں کہا بلوچستان عوامی پارٹی نے مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کرائی لیکن انہیں دی گئیں،انھوں نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نے کیا اس ریکارڈ پر کوئی میٹنگ رکھی؟ کچھ ریکارڈ کو پرکھا؟ جس پروکیل سکندر بشیر نے جواب دیا ایسا کوئی الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود نہیں ہے، موجودہ کیس میں تو مکمل سماعت ہوئی۔  جسٹس عائشہ ملک  نے کہا آپ کو کم سے کم گزشتہ انتخابات کو تحریر کرنا چاہیے تھا، ابھی پوزیشن کچھ اور ہے، اس سے قبل کچھ اور رکھی، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا  آپ نے تو بلوچستان عوامی پارٹی پر کوئی ایکشن نہیں لیا، بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں تو انتخابات میں سیٹیں جیتی تھیں؟ کوئی ایسا قانون ہے کہ ایک صوبے میں سیٹیں جیتی ہوں تو دوسرے صوبے میں نہیں مل سکتیں۔ 

جسٹس منصورعلی شاہ  نے استفسار کیا ہر انتخابات الگ ہوتاہے،اگر کہا جائے کہ 8 فروری کو 5 انتخابات ہوئے تو کیا درست ہے؟ وفاق اور صوبائی انتخابات الگ الگ ہوتے ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندبشیر نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔ 

جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے نے کسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں کی تھی، غلط تشریح کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا پورا موقف خراب ہوجاتا ہے، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا اس سوال کا جواب دے چکا ہوں، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن لڑا نہ ان کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا۔

 جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیاگزشتہ انتخابات میں باپ پارٹی کو کے پی میں مخصوص نشستیں کیسے دی گئی تھیں؟ 

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا باپ پارٹی کو نشستیں دینے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا، باپ پارٹی کو نشستیں دینے کے معاملے پر کوئی سماعت نہیں ہوئی تھی، 

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا الیکشن کمیشن ایک معاملے پر دو مختلف موقف کیسے لے سکتا ہے؟جس پر وکیل نے کہا  موجودہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کیا،

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ کیا باپ پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا تھا؟ کیا ایسی کوئی پابندی ہے کہ کسی بھی اسمبلی میں نشست ہو تو مخصوص سیٹیں مل سکتی ہیں،جسٹس منیب اختر نے کہا کیا یہ درست ہے کہ آئین و قانون کے مطابق 8فروری کو پانچ عام انتخابات ہوئے تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا ہر اسمبلی کیلئے الگ عام انتخابات ہوتے ہیں، 

اسی کے ساتھ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے اپنے دلائل مکمل کر لئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا بیرسٹر گوہرعلی خان موجود ہیں؟ ان کے سوال پر گوہر علی خان روسٹرم پر آگئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے دریافت کیا کہ آپ سے پہلی سماعت پر پوچھا کیا پی ٹی آئی کے ڈیکلریشن، سرٹیفکیٹ جمع کرائے تو آپ نے ہاں کہا، لیکن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چند کاغذات نامزدگی میں جمع ہیں چند میں نہیں، کون سا بیان آپ کا درست ہے؟

اس پر گوہر علی خان نے جواب دیا کہ ہر امیدوار دو، دو فارم جمع کرا سکتا ہے، میں نے آزاد امیدوار اور تحریک انصاف کے جمع کرائے، الیکشن کمیشن ایک فارم لایا، تحریک انصاف کے فارم بھی منگوائیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتخابات تو ایک پر لڑنا ہے، دو کیسے لکھ لئے آپ نے؟

گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ ایک حلقے کیلئے چار کاغذات نامزدگی جمع ہوتے، کوورنگ امیدوار بھی ہوتا، میں نے الگ الگ پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے، 22 دسمبر 4 بجے سرٹیفکیٹ پہنچا دیئے تھے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ رات 9 بجے آیا، الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا نہیں۔

اس موقع پر معاون وکیل نے کہا کہ فاروق نائیک عدالت نہیں پہنچ سکے، پیپلزپارٹی کے وکیل اور شہزاد شوکت نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لئے۔

کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جے یو آئی ف الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا رہی ہے، اقلیتوں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے مس پرنٹ ہوا تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی، اقلیتوں کے حوالے سے الگ سیکشن موجود ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے درست کام کیا ہے؟ وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئینی ادارے کے ساتھ ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے بیرسٹر حارث عظمت نے تحریری دلائل جمع کرا دیئے تاہم عدالت نے مولوی اقبال حیدر کو دلائل سے روک دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے الیکشن نہیں لڑا تو آپ ہمارے لئے کوئی نہیں ہیں، اپنا کیس چلانا ہو تو کالا کوٹ نہیں پہن سکتے۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی نوٹس پر بطور ایڈووکیٹ جنرل دلائل دوں گا، متفرق درخواست میں تحریری دلائل جمع کرا چکا ہوں، الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کے پی میں انتخابات درست نہیں ہوئے؟

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ فیصل صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں، گزشتہ انتخابات میں کے پی میں باپ پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، باپ پارٹی کے پاس صوبے میں کوئی جنرل نشست نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی میں تین افراد نے شمولیت اختیار کی تھی،ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ آزاد کی شمولیت پر الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کو مخصوص نشست دی تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی کی بلوچستان میں حکومت تھی، قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی بھی تھے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کیلئے باقاعدہ نیا شیڈول جاری کیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایک وکیل نے ایک کیس میں کچھ موقف اپنایا شام کو کچھ اور، مختلف موقف کا سوال ہونے پر وکیل نے کہا میں اب زیادہ سمجھدار ہوگیا ہوں۔  

جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا الیکشن کمیشن سے اپنے نوٹ میں کچھ معلومات مانگی تھیں،جس پر سکندر مہمند نے کہا آپ کا نوٹ میں نہیں پڑھ سکا۔   

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کیا

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے سپریم کورٹ کو سینٹ، قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا سیاسی جماعت ہی ووٹ حاصل کرکے مخصوص نشستوں کے لیے اہل ہوتی ہیں۔ اسمبلیوں کی نشستیں جنرل انتخابات اور پھر مخصوص نشستوں سے مکمل کی جاتی ہیں، اسمبلیوں میں نشستوں کو مکمل کرنا ضروری ہے، آئین کا مقصد خواتین، غیر مسلمانوں کو نمائندگی دینا ہے، اگر اسمبلی میں نشستیں مکمل نہیں ہوں گی تو آئین کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ 

انھوں نے مزید بتایا کہ رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی فہرست میں پاکستان تحریک انصاف بدستورشامل ہے، پی ٹی آئی بطورجماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی فہرست میں 88ویں نمبردرج ہے ،الیکشن کمیشن کے پاس اس وقت پاکستان بھر سے 166سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں ،عام انتخابات سے قبل استحکام پاکستان پارٹی ، خادمین سندھ، پاکستان کسان لیبر پارٹی اور تحریک احساس پاکستان الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہوئیں،سیاسی جماعت کو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 208، 209 (3) اور الیکشن رولز 2017 کے رول 158 (2) کے تحت کے تحت رجسٹر کیاجاتاہے،انتخابات سے قبل نئی جماعتوں کے اندراج کے بعد الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی مجموعی تعداد 172 تک جا پہنچی تھی، عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے 13جماعتوں کو ڈی لسٹ کردیاتھا الیکشن ایکٹ کے تحت کوئی بھی ایسی پارٹی جو الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہو اس کیلئے انٹرا پارٹی الیکشن کرانا بھی ضروری ہے۔ 

جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنے کے بعد تنازع شروع ہوا، اگر الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہ کرتی تو تنازع نہ ہوتا۔  

 سنی اتحادکونسل کہتی آزادامیدوار سنی اتحاد میں شامل ہوناچاہتے ہیں ، جس کے بعد سنی اتحاد مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل ہے۔  

جسٹس منصورعلی شاہ  نے کہا کاش میرا چیف جسٹس جیسا دماغ ہوتا، پڑھتے ہی سب کچھ سمجھ جاتا ،لیکن میں عام آدمی ہوں، آئین لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، وکلاء اور ججز کے لیے آئین نہیں بنائے جاتے، آئین لوگوں کی پراپرٹی ہے، آئین ایسے بنایا جاتا تاکہ میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

 کمزور ججز کو بھی ساتھ لے کر چلیں نا، جسٹس منصور علی شاہ کے جملے پر قہقہے عدالت چاہتی جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے اسے ملے، کسی کو کم زیادہ سیٹیں نہ چلی جائیں، جسٹس منصورعلی شاہ حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس عائشہ ملک نے کہا فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزادامیدوار بنا دے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزادامیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزادامیدوار آیا ؟ 

اٹارنی جنرل منصوراعوان  سنی اتحادکونسل کہتی آزادامیدوار سنی اتحاد میں شامل ہوناچاہتےجس کے بعد سنی اتحاد مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل ہے۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے کہا ہم باریکیوں میں چلے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن خودمختار آئینی ادارہ ہے جو کی کوئی حیثیت سمجھتا ہی نہیں، اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک کیس نہیں آئےگا ہم نظرثانی نہیں کرسکتے، ہر انتخابات میں ایک ہی بات ہوتی، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والا کہتاہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے،کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ بلکل اڑا دےگی۔ 

جسٹس منصورعلی شاہ  نے کہا چیف صاحب کہہ رہے  ہیں الیکشن کمیشن اتنا زبردست ادارہ ہے، الیکشن کمیشن اگر کسی سیاسی جماعت کو فیصلے کی غلط تشریح کرکے نااہل کردے تو اصل سوال یہ ہے جس کو دیکھنا چاہئے،2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ ہوئیں؟ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے فارمولا اور دستاویزات کل منگوا لیے۔

چیف جسٹس  فائز عیسیٰ نے کہاکل سماعت ڈیڑھ بجے تک مکمل کرینگے، کل  جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہے۔ 

سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔