ایک نیوز:یقین کرنا مشکل ہوگا مگر ہمارا جسم کسی میوزیم سے کم نہیں، جس میں ایسے قدیم فیچرز موجود ہیں جن کا مقصد اب بھی سمجھ نہیں آتا۔
تفصیلات کےمطابق عقل داڑھ سے لے کر اپنڈکس اور بھی بہت کچھ ایسا ہے جن کی موجودگی کا مقصد سائنسدانوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ان میں سے ایک چیز ہمارے ہاتھوں میں چھپی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اب بھی بیشتر افراد کی کلائیوں میں اسے دیکھا جا سکتا ہے مگر متعدد اس سے محروم بھی ہوتے ہیں۔
درحقیقت دنیا میں 15 فیصد افراد ایسے بھی ہیں جن کی کلائی میں یہ چیز موجود نہیں اور وہ ہے ایک مخصوص مسل۔
اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ مسل ہاتھوں میں موجود ہے یا نہیں تو کسی سپاٹ میز پر ہاتھ کو رکھیں اور پھر چھوٹی انگلی سے انگوٹھے کو چھوئیں۔ایسا کرنے پر کیا آپ کو کلائی کے درمیان میں ایک مسل یا لکیر نظر آئے گی جو کسی حد تک ابھری ہوئی ہوگی؟
اگر ہاں تو آپ دنیا کے ان 85 فیصد افراد میں شامل ہیں جن کے ہاتھوں میں اب بھی پامیرس لونگس نامی یہ مسل موجود ہے۔مگر 15 فیصد افراد پیدائشی طور پر ایک یا دونوں ہاتھوں میں اس مسل کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔
مگر اس مسل کا کوئی خاص مقصد نظر نہیں آتا کیونکہ اس سے محروم ہونے یا موجودگی سے گرفت کی مضبوطی یا کلائی کی لچک میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔زیادہ تر سرجن پلاسٹک سرجری یا جسم میں کسی سرجری کے دوران اکثر اس مسل کو نکال دیتے ہیں۔تو پھر ہمارے جسم میں یہ مسل کیوں موجود ہے؟ اس کا جواب بہت دلچسپ ہے۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ اگرچہ آج کے عہد میں بیشتر ممالیہ جانداروں میں یہ مسل موجود ہوتا ہے مگر یہ زیادہ تر ایسے جانوروں میں نمایاں ہوتا ہے جو کہنی کو گھمانے کے عادی ہوتے ہیں جیسے لنگور یا بندر وغیرہ۔
یعنی ایسے جانداروں کے ہاتھوں میں یہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے جو ہاتھوں کے بل جھولنے کے عادی ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ درختوں پر اپنا وقت زیادہ گزارتے ہیں۔
یعنی انسانوں میں اس کا کوئی حقیقی استعمال موجود نہیں اور یہ ہمارے جسمانی ارتقا کا وہ حصہ ہے جو زمانہ قدیم کے انسانوں سے ہم میں منتقل ہوا۔زمانہ قدیم کے انسانوں میں تو یہ مسل بہت نمایاں ہوتا تھا مگر جیسے جیسے انگوٹھوں کا استعمال زیادہ کرنے لگے اور درختوں پر چڑھنے کی ضرورت نہیں رہی، تو اس کی موٹائی بتدریج گھٹنے لگی اور اب یہ بس ایک یادگار کے طور پر موجود ہے۔
یعنی آپ کے ہاتھ میں یہ مسل موجود ہے یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کا استعمال ہی نہیں ہوتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ افراد کے صرف ایک ہاتھ میں یہ مسل ہوتا ہے تو کچھ کےدونوں ہاتھوں میں، اور 15 فیصد تو ایسے ہیں جو مکمل طور پر اس سے محروم ہیں۔