انہوں نے براہ راست بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے زندگی میں بڑی غلطیاں کیں، ملک قانون کی پابندی یعنی رول آف لاء پر چلتا ہے مگر میں ترجیحات کا تعین کرتا تھا کہ پہلے کن مسائل کو حل کرنا ہے۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ آپ بات ٹھیک کر رہے ہیں لیکن میں تمام مسائل کو ایک ساتھ حل نہیں کر سکتا تھا، پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہم بہت سی چیزیں درست کر سکتے تھے۔
عمران نے کہا کہ وہ عام سے آدمی ہیں، زندگی میں بڑی غلطیاں کیں، لیکن کرکٹ میں کامیابی کی وجہ یہ رہی کہ غلطیوں کا تجزیہ کر کے ان کی اصلاح کی۔
حکومت کے ساڑھے تین برسوں کو زندگی کے مشکل ترین سال قرار دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ صبح اٹھتے تو ایک نیا بحران سامنے ہوتا تھا۔
سیاستدانوں سے امریکی سفارتکاروں کی ملاقاتوں کو تنقید کا ہدف بناتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ان کے پاس سارا ریکارڈ ہے کہ کون کون امریکی سفارتخانے میں جارہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ادارے رول آف لاء سے ترقی کرتے ہیں، مارشل لاء لگتا ہے تو رول آف لاء کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے سیمینار کے بعد صحافیوں نے سوالات کے انبار لگا دیئے۔
ایک صحافی نے پوچھا کہ ’ خان صاحب کیا ابھی بھی آپ کا آرمی چیف سے رابطہ ہوتا ہے’ جس پر عمران خان نے جواب دینے سے گریز کیا۔
ایک اور صحافی نے سوال پوچھا کہ ’ خان صاحب توشہ خانہ سے کیا خریدا کیا بیچا؟’ جس پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘یہ توشہ خانہ نہیں بلکہ توچہ خانہ ہے۔’
اس کے علاوہ دوسرے صحافی نے سوال کیا کہ ’ آپ صحافیوں کے سوالات کا جواب کیوں نہیں دیتے’ اس پر بھی عمران خان بغیر جواب دیئے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔