ویب ڈیسک: بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سندیپ سنگھ نے سکالر شپ کے ساتھ اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور کچھ عرصے تک ایک سرکاری یونیورسٹی میں گیسٹ لیکچرر کے طور پر پڑھاتے رہے، لیکن اب وہ سڑک کے کنارے سبزیاں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے اپنی نئے کام کا نام ’پی ایچ ڈی ویجیٹیبل‘ رکھا ہے۔ جن کی ویڈیوز اور تصاویر کا آج کل سوشل میڈیا پر خوب چرچا ہورہا ہے۔ عوام کا ماننا ہے کہ اتنے قابل نوجوان کا سبزی بیچنا پنجاب میں بےروزگاری کے بےقابو جن کی زندہ مثال ہے۔
سندیپ سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پی ایچ ڈی کے ساتھ چار مضامین میں ماسٹرز کی ڈگری (ایم اے) بھی حاصل کی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پی ایچ ڈی کے بعد ’میرا پورا نام ڈاکٹر سندیپ سنگھ ہے لیکن آج کل میرا نام پی ایچ ڈی سبزی والا ہے۔‘
سندیپ سنگھ کے پاس ڈگریوں کا انبار ہے جو ان کی تعلیمی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے لیکن وہ اس بات سے مایوس ہیں کہ انہیں بھارت میں کوئی بھی ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق ملازمت دینے کو تیار نہیں ہے۔ 39 سالہ سندیپ سنگھ شادی شدہ ہیں اور ایک بچے کے باپ ہیں۔ وہ امرتسر کی فتح سنگھ کالونی میں کرائے کے مکان میں انتہائی زبوں حالی میں زندگی بسر کررہے ہیں۔
سندیپ نے قانون میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے ذریعے منعقدہ جونیئر ریسرچ فیلوشپ (جے آر ایف) کا امتحان بھی پاس کیا ہے۔
اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے بہت سے طلبہ کو ماہانہ وظیفے کی رقم دی جاتی ہے جو ان دنوں اچھی خاصی ہے۔ یہ وظیفہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کی طرف سے ان طلبا یا محققین کو دیا جاتا ہے جو پی ایچ ڈی کرنے کے لیے یہ امتحان پاس کرتے ہیں۔
سندیپ سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سنہ 2017 میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نے پنجابی زبان و ادب میں، صحافت میں، ویمن سٹڈیز میں اور پولیٹیکل سائنسز میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور اب وہ بی لِب (لائبریری سائنسز میں بیچلرز) کر رہے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے تقریباً 11 سال پڑھایا۔ پہلے پانچ سال میں نے جونیئر ریسرچ فیلو کے طور پر پڑھایا اور سنہ 2016 سے اگلے سات سال میں نے بطور گیسٹ فیکلٹی پڑھایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھیں اپنی کمزور مالی حیثیت کی وجہ سے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے سبزیاں اگانے کا کام کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ بہت کم تھی اور اب ان کے پاس باقاعدہ نوکری بھی نہیں رہی ہے۔ ان کے خیال میں کوئی بھی کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا ’لیکن کام قابلیت اور اہلیت پر ہونا چاہیے، میں اب وہ کام کر رہا ہوں جو میں کئی سال پہلے کر سکتا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بطور گیسٹ لکچرار انہیں ماہانہ زیادہ سے زیادہ 35 ہزار روپے ملتے تھے اور وہ بھی سال کے چھ یا سات مہینے ہی ایسا ہو پاتا تھا۔
ان کے مطابق اب وہ سبزی کی فروخت سے پہلے کی نسبت زیادہ کماتے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں اپنی تعلیم کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ لوگ انہیں گاہکوں کو پکارتا ہوا دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔
سندیپ سنگھ نے بتایا کہ وہ صبح سویرے سے سبزی بیچنا شروع کرتے ہیں اور دوپہر تک فروخت کرتے ہیں۔ ان کا خواب ایک کوچنگ اکیڈمی کھولنا ہے۔