بشریٰ بی بی کون ہیں اور بنی گالا سب جیل میں ان کو کون سی سہولیات دستیاب ہوں گی؟

Feb 01, 2024 | 14:27 PM

ویب ڈیسک: اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے سرکاری تحائف سے متعلق توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

احتساب عدالت کی جانب سے عمران خان کو دس سال کے لیے نااہل بھی قرار دیا گیا ہے جبکہ سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ پر مجموعی طور پر ایک ارب 57 کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

عمران خان کی اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا ہے اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ میں ان کی رہائش گاہ منتقل کر دیا گیا ہے۔

سپریٹینڈنٹ اڈیالہ کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں چیف کمشنر اسلام آباد نے بشریٰ بی بی کی بنی گالہ رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ خان ہاؤس بنی گالہ موہڑہ نور کو تاحکم ثانی سب جیل قرار دیا جاتا ہے۔

بانی پی ٹی آئی کی بنی گالہ رہائش گاہ کےباہرپولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے اور ان کی رہائش گاہ کےاندر جیل پولیس کا عملہ تعینات رہے گا۔ انہیں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سب جیل کہتے کسے ہیں؟

کسی قیدی کو جیل میں رکھنے کی بجائے اس کے گھر میں رکھنا سب جیل یا ہاؤس اریسٹ کہلاتا ہے۔ 

گھر میں نظر بندی ایک سزا ہے جس میں عدالت کی طرف سے مجرموں کو اپنی رہائش گاہوں میں محدود رہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ایسے قیدیوں کو انتہائی غیرمعمولی حالات میں ہی گھر سے نکلنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے قیدیوں کو ایک الیکٹرک کڑا پہنایا جاتا ہے۔ 

ایسے قیدیوں کو گھر میں الیکٹرانک کمیونیکیشن سمیت عام حالات میں کسی شخص سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوتی۔ ملاقات صرف مخصوص اوقات میں ہی کی جاسکتی ہے۔

اہلیت

گھر میں نظر بندی کا ایک اہم پہلو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون اہل ہونا چاہیے۔ عام طور پر، پرتشدد مجرموں کو گھر میں نظربندی کا اہل نہیں سمجھا جاتا ہے، اور ان مجرموں کے لیے گھر میں نظربندی کا استعمال کرنا نامناسب ہے جیسے کہ منشیات فروشوں کو ان کے گھروں سے باہر منشیات فروخت کرنے پر سزا دی گئی ہے۔ 

اسی طرح ٹریفک کے عادی مجرموں اور نشے میں دھت گاڑی چلانے والے افراد کو گھر میں قید نہیں کیا جاتا ہے۔ گھر میں نظربندی بعض اوقات ایسے لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو شدید بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یا جن کو سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے دیگر قیدیوں کے ساتھ نہ رکھا جاسکا ہو۔

خاص قیدیوں کو جیل میں دستیاب سہولیات: 

 کسی بھی جرم میں ملوث فرد کا ٹھکانہ بالاخر جیل ہوتا ہے جہاں کے اپنے قاعدے قانون ہیں، جیل پہنچتے ہی کئی افراد کو خصوصی سہولیات دے دی جاتی ہیں اور اسے کلاس اے اور بی کہا جاتا ہے۔ کلاس اے اور بی ملنے کا معیار کیا ہے؟ اور اس میں قیدی کو کیا سہولیات حاصل ہوتی ہیں؟

جیل ایکٹ 1978ء کے تحت پاکستان میں قیدیوں کے لیے تین درجے مختص ہیں جنھیں اے، بی اور سی کہا جاتا ہے۔ اے اور بی کٹیگری کو خصوصی کلاس بھی کہا جاتا ہے۔

خصوصی کلاس گریڈ سولہ یا اس سے اوپر کے کسی بھی افسر، کمیشنڈ افسر، یا رکن پارلیمنٹ کو دی جا سکتی ہے۔ ایسے عام شہری جو سالانہ 6 لاکھ روپے سے زائد کا ٹیکس دیتے ہوں، وہ بھی خصوصی کلاس حاصل کر سکتے ہیں۔

اے کیٹگیری میں آنے والے قیدی کو ٹی وی، فریج اور واٹر کولر کی سہولت میسر ہو گی جبکہ کام کاج کے لیے دو مشقتی بھی دئیے جائیں گے۔ اے کلاس کا قیدی ہر پندرہ روز بعد اپنی پسند کا کھانا گھر یا باہر سے منگوا سکتا ہے۔ اے اور بی کلاس کے قیدی اپنی مرضی کے کپڑے بھی پہن سکتے ہیں۔

بی کیٹیگری میں موجود قیدی کم سے کم گریجویٹ لیکن ساتھ ہی قید بامشقت کے مجرم بھی ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں خصوصی کلاس کی دیگر سہولیات تو حاصل ہوتی ہیں لیکن مشقتی یا خدمت گار دستیاب نہیں ہوتا۔

تیسری کیٹیگری یعنی کیٹیگری سی، عام ہوتی ہے جہاں تمام قیدیوں کو ایک ہی جگہ رکھا جاتا ہے۔ انھیں قیدی نمبر دیا جاتا ہے اور ان کے لیے قیدیوں والا لباس پہننا لازم ہے۔

تاہم سب جیل میں بشری بی بی کو کلاس اے اور بی میں سے سہولیات فراہم کیے جانے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے بہت جلد نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے گا۔ جس سے بہت سے معاملات میں ابہام دور ہوجائے گا۔ 

بشریٰ بی بی ہیں کون؟

بشریٰ بیگم کا نام قندیل بلوچ کی زبانی جب پہلی بار کسی میڈیا پر آیا تھا تب تک ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا اور شاید کسی نے ان کی بات کو سنجیدہ بھی نہیں لیا تھا۔

قندیل بلوچ کے قتل کے بعد جب یکم جنوری 2018 کو صحافی عمر چیمہ نے عمران خان اور بشریٰ بیگم کے نکاح کی خبر دی تو پہلے تو تحریک انصاف نے تردید کی لیکن کچھ ہی دنوں بعد تصدیق بھی کر دی اور باقاعدہ ولیمہ بھی ہوا۔

بشریٰ بیگم پاکپتن کے مانیکا خاندان کے خاور مانیکا کی اہلیہ اور ایک روحانی شخصیت تھیں کہ کسی ذریعے سے عمران خان اور ان کا رابطہ ہوا۔ عمران خان نے ان کو اپنا مرشد بنا لیا اور اکثر ان کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔

نکاح کے بعد بشریٰ بیگم آئیں تو عمران خان کی زندگی بدل گئی۔ وہ مذہب میں زیادہ دلچسپی لینے لگے اور ان کی گفتگو میں بھی مذہبی ٹچ نمایاں ہوگیا۔

تاہم یہ تنازعات بھی جنم لینے لگے کہ اس شادی سے قبل جو لوگ عمران خان کے قریب تھے وہ دور ہونے لگے بلکہ کچھ تو ایسے بھی تو جو نہ صرف عمران خان اور بشریٰ بیگم کے تعلق اور پھر نکاح کے چشم دید گواہ تھے ان کو بھی عمران خان سے دور ہونا پڑا یا انھیں دور کر دیا گیا۔ ان میں جہانگیر ترین، عون چوہدری اور علیم خان بڑی مثالیں ہیں۔

ابتدا میں یہ سب باتیں بھی افسانہ ہی معلوم ہوتی تھیں لیکن رفتہ رفتہ ان رہنماؤں کے اخباری اور عدت میں نکاح کیس میں مانیکا فیملی سمیت دیگر کے بیانات نے ان باتوں کی تصدیق کی۔

بشریٰ بیگم پر عمران خان کے مخالفین الزامات بھی عائد کرتے تھے جن میں سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ اپنی دست راست فرح گوگی کے ذریعے پنجاب حکومت چلا رہی ہیں اور کرپشن میں ملوث ہیں۔

اس حوالے سے یہ الزام بھی موجود ہے کہ عثمان بزدار کو لگوانے اور پارٹی اور مقتدر حلقوں میں مخالفت کے باوجود ان کو نہ ہٹانے کے پیچھے بشریٰ بیگم کا ہاتھ تھا۔

اس تنقید پر عمران خان کو شدید غصہ اور تکلیف بھی ہوتی اور اپنے خطابات میں وہ اس کا اظہار انتہائی کرب کے ساتھ کرتے کہ ان کی گھریلو اور باپردہ بیوی کو سیاست میں ملوث کیا جاتا ہے اور انھیں بدنام کیا جا رہا ہے۔

توشہ خانہ کیس کی تفصیلات سامنے آنے لگیں تو بشریٰ بیگم کا کردار بھی اس میں موجود تھا لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کی جانب سے اس کا مسلسل انکار کیا جاتا رہا۔

بعد ازاں بشریٰ بیگم اور ذولفی بخاری کی آڈیو لیک میں ان الزامات کی جھلک دکھائی دی۔

ملک ریاض کی بیٹی اور فرح گوگی کی آڈیو لیک میں بھی بشریٰ بیگم اور ہیرے کی انگوٹھی کا ذکر موجود تھا۔ بشریٰ بیگم پر القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض سے فائدہ لینے کا بھی الزام ہے جس کے بدلے میں انھیں 190 ملین پاونڈز کی واپسی میں مبینہ سہولت کاری ہوئی۔

توشہ خانہ کیس جب عدالتوں میں شروع ہوا تو پردہ نشین بشریٰ بیگم اپنے مخصوص انداز میں عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں۔ یہ بھی تاثر ملتا رہا کہ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح عمران خان کے خلاف جا سکتی ہیں لیکن انھوں نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا اور عمران خان کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔

اگرچہ بشریٰ بیگم ایک گھریلو خاتون ہیں لیکن بدھ کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے 14 سال سزا سنانے کے وقت وہ عدالت میں موجود نہیں تھیں۔ اس طرح کے فیصلوں کے بعد امکان یہی ہوتا ہے کہ متعلقہ حکام مجرم کو پکڑنے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں یا چھپے ہونے کی صورت میں اسے تلاش کرتے ہیں لیکن بشریٰ بیگم نے ایک انتہائی سیاسی قدم اٹھاتے ہوئے حکام کی جانب سے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وہ گرفتاری دینے کے لیے اڈیالہ جیل پہنچ گئیں۔ جس نے سیاسی و صحافتی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

توشہ خانہ کیس آخر ہے کیا؟

نیب کی جانب سے دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی ساڑھے تین سالہ حکومت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی اہلیہ کو مختلف سربراہان مملکت کی جانب سے 108 تحائف موصول ہوئے جن میں سے انھوں نے 58 تحائف اپنے پاس رکھ لیے اور ان تحائف کی ’کم مالیت‘ ظاہر کی گئی۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’ملزمان نے سعودی ولی عہد سے ملنے والا جیولری سیٹ بھی کم مالیت پر حاصل کیا جبکہ بشریٰ بی بی نے سعودی ولی عہد سے ملنے والا جیولری سیٹ توشہ خانہ میں جمع ہی نہیں کروایا۔‘

نیب ریفرنس میں الزام تھا کہ ’ملزمان تحائف توشہ خانہ میں جمع کرواںے کے پابند تھے۔ قواعد کے مطابق ہر تحفہ توشہ خانہ میں جمع کروانا ہوتا ہے۔ سعودی عرب سے ملا تحفہ وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری نے 2020 میں رپورٹ کیا۔ گراف جیولری سیٹ کو رپورٹ کرنے کے بعد قانون کے مطابق جمع نہیں کروایا گیا۔‘

ریفرنس کے مطابق ’نیب نے تحقیقات میں پرائیویٹ مارکیٹ سے بھی تخمینہ لگوایا۔ تحقیقات میں ثابت ہوا کہ گراف جیولری سیٹ کی مالیت کم ظاہر کی گئی۔‘

توشہ خانہ کیس کی تحقیقات اور کارروائی کے دوران بشریٰ بی بی کی اور عمران خان کے ملازم انعام کی بھی ایک مبینہ ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ اس گفتگو کے دوران مبینہ طور پر بشریٰ بی بی ملازم کو گھر میں آنے والے توشہ خانہ کے تحائف کی تصاویر بنانے پر ڈانٹ رہیں تھیں۔

تاہم سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت نے اس آڈیو ریکارڈنگ کو ’غیرتصدیق شدہ‘ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

اس سزا سے پہلے اڈیالہ جیل میں ہونے والی عدالتی کارروائی میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر عدت میں نکاح کے مقدمہ میں بھی فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔

عمران خان اور بشری بی بی کا نام القادر ٹرسٹ کیس میں بھی زبان زد عام رہا۔ جس میں ان پر الزام تھا کہ القادر یونیورسٹی کے لیے کئی سو کنال زمین بطور عطیہ حاصل کی گئی اور یہ عطیہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے دیا گیا۔

مزیدخبریں