ویب ڈیسک:چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے بھی حکومت ملنے پر 300یونٹ مفت بجلی دینے کا اعلان کردیا ۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کا کوئٹہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ انہوں نے کہا کہ سنا ہے میاں صاحب جب تیسری دفعہ وزیراعظم بنےتو لوڈشیڈنگ ختم کردی تھی، اب کونسی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے؟ انشاء اللہ سندھ، بلوچستان اور وفاق میں حکومت بناکر گرین انرجی پارکس بنائیں گے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھاکہ اسلام آباد میں بیٹھے بابو خود کام کرتے ہیں نا کسی کو کرنے دیتے ہیں ۔ اسلام آباد میں بیٹھے بابو کو نہیں پتا مسائل کیا ہیں مسائل حل کرنے کے لیے اسلام آباد سے دور رہ کر آپ سے مشورہ کرنا پڑے گا۔ ملک جس طریقے سے چل رہا ہےاس طریقےسے نہیں چلا سکتے، بلوچستان،سندھ،خیبرپختونخوا،پنجاب کےعوام میں احساس محرومی ہے، ہمیں پرانی نفرت،تقسیم والی سیاست بارے اب سوچنا پڑے گا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کوبہت نقصان ہورہا ہے، خدشہ ہےموسمیاتی تبدیلیوں سے آگے جاکرمزید نقصان ہوگا، موسمیاتی تبدیلی سے سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
سابق وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ آپس کی لڑائیوں میں عوام کی تکالیف میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کے باعث عوام کا حکومتوں سےاعتماد اٹھتا جارہا ہے، ہمیں عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا، اگرجمہوری جماعتیں فیل ہونگی توکوئی اورقوت ہماری جگہ لےگی۔
قبل ا زیں کوئٹہ میں بلوچستان ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹوکاکہنا تھاکہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتے ہیں۔ہمیں پرانی سیاست کی سوچ کو چھوڑنا ہوگا، پرانی طرز سیاست والے سیاستدانوں کے حوالے یہ ملک نہیں کرنا چاہیے، میرا یہ اعتراض بالکل نہیں کہ یہ لوگ بزرگ ہوچکے ہیں۔ 8 فروری کو الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ جو 3 بار اس ملک کا وزیراعظم بنا وہی چوتھی بار بنے گا اور وہ ملک کو ان مشکلات سے نکالے گا۔دوسری طرف بتایا جا رہا ہے کہ ایک دوسرا شخص جو خود چند سال پہلے وزیراعظم رہ چکا ہے اور اپنے دور میں جس نے کہا تھا کہ بلوچستان میں احتجاج کرنے والے ہزارہ برادری کے لوگ بلیک میلرز تھے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جس نے وزیراعظم ہوتے ہوئے لاپتہ لوگوں کے معاملے کو غیراہم سمجھا، وہ 70 سال کا شخص نوجوانوں کا لیڈر کہلاتا تھا، کیا یہی لوگ پاکستان، بلوچستان اور ملک کے لوگوں کے آپشنز ہیں، اور میرا یہ اعتراض تو بالکل نہیں کہ یہ بزرگ بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ بزرگ ہوتے ہوئے بھی اس ملک کے لیے نئی طرز سیاست اختیار کرسکتے ہیں، اور آپ نوجوان ہوتے ہوئے بھی وہی پرانی طرز سیاست سے دلچسپی رکھ سکتے ہیں۔