ایک نیوز:سپریم کورٹ میں 9 مئی سےمتعلق خصوصی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پرسماعت شروع ہوگئی ہے، دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے زیرحراست 102افراد کی تفصیلات عدالت میں پیش کردیں اور کہا کہ زیرحراست افراد فوجی تنصیبات میں حملوں میں ملوث ہیں،بعد ازاں عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف آئینی درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔
تفصیلا ت کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف آئینی درخواستوں پر سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہوگئی،چیف جسٹس پاکستان عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ زیر حراست 7 ملزمان جی ایچ کیو حملے میں ملوث ہیں، 4 ملزمان نے آرمی انسٹیٹیوٹ پرحملہ کیا، زیرحراست 28 ملزمان نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں حملہ کیا، ملتان سے 5 اور10 ملزمان گوجرانوالہ گریژن حملے میں ملوث ہیں، آئی ایس آئی آفس فیصل آباد پر حملے میں 8 ملزمان اور 5 پی ایف بیس میانوالی حملے میں ملوث ہیں، چکدرہ حملے میں 14 ملزمان ملوث ہیں، پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان حملے میں 7 ملزمان نے حملہ کیا، ایبٹ آباد کے 3 اور بنوں گریژن پر 10 ملزمان نے حملے کیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے فیصل صدیقی کی فل کورٹ کیلئے درخواست ہے، ایک درخواست خواجہ احمد حسین کی بھی ہے، فیصل صدیقی کے آنے تک خواجہ احمد حسین کو سن لیتے ہیں۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے عدالت میں کہا کہ جواد ایس خواجہ کی جانب سے کہنا چاہتا ہوں وہ اپنے سابقہ عہدے کا کوئی استعمال نہیں کر رہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جواد ایس خواجہ ایک گوشہ نشین آدمی ہیں، ان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔جواد ایس خواجہ اے پولیٹیکل ہیں، اے پولیٹیکل بہترلفظ نہیں وہ غیرسیاسی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فیصل صدیقی چھپ گئے ہیں؟
اس دوران جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ان 102 افراد کے علاوہ باقی افراد کو کیوں چھوڑدیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی تنصیبات حملوں میں صرف 102 افراد کو ہی گرفتار کیا گیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ پک اینڈ چوز کی اجازت قانون میں نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرفتاریوں میں پک اینڈ چوز نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 102 گرفتار افراد کے دفاعی تنصیبات حملے کے ڈائریکٹ شواہد ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ان تمام گرفتار افراد کے خلاف ٹھوس شواہد ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان 102 افراد کا فوجی ٹرائل کیا جائے گا؟ کوئی آزاد ادارہ ہونا چاہیے جو جائزہ لے کہ گرفتاریاں ٹھوس وجوہات پر کی گئیں یا نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کیا سویلینز کو کمانڈنگ افسر کے حوالے کرنے سے پہلے مجسٹریٹ سے اجازت لی گئی یا نہیں۔
جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا 102 افراد کی حوالگی کی درخواست مجسٹریٹ سے کی گئی تھی؟
جسٹس مظاہرنقوی نے پوچھا کہ کیس چلانے کے لیے شواہد کے طور پر آپ کے پاس صرف تصاویرہیں؟ عدالت میں ان افراد کیخلاف کیا شواہد پیش کیے جائیں گے؟ بظاہرلگتا ہے ملزمان کیخلاف مواد کےنام صرف فوٹوگراف ہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تمام تر شواہد عدالت کے سامنے پیش کروں گا۔
چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں ہے۔فیصل صدیقی صاحب آچکے ہیں ان کوسنیں گے۔وکیل فیصل صدیقی نے ایک درخواست فل کورٹ کی دی ہے۔
اس دوران فیصل صدیقی نے عدالت سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کردی اور کہا کہ پہلے میں واضح کرونگا کہ ہماری درخواست الگ کیوں ہے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم نے فل کورٹ تشکیل دینے کی 3وجوہات بیان کیں، پرویزمشرف بھی فل کورٹ فیصلے کی مخالفت نہ کرسکے، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ اٹارنی جنرل بتاچکے ہیں کسی شخص کوسزائے موت یا عمر قید نہیں ہوگی، اٹارنی جنرل یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں کہ عدالت کے علم میں لائے بغیر ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی وجہ سے بہت اہم ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے یہ پہلی درخواست آئی ہے،ہم باقی درخواست گزاروں کا موقف بھی سننا چاہتے ہیں۔
درخواست گزار اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ یہ سب میرے لیے حیران کن ہے کہ اس مرحلے پر آ کر بنچ کی تشکیل کو چیلنج کیا گیا،ہم سپریم کورٹ کی تکریم کے لیے جیلوں میں گئے،ہمیں اس بینچ پر مکمل اعتماد ہے،عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بنچ میں شامل کیا تھا،2 ججوں کے اُٹھ جانے کے بعد یہ ایک طرح کا فل کورٹ بنچ ہی ہے،میں خود 1980 میں 80 دیگر وکلاء کے ساتھ گرفتار ہوا تھا،ہم مارشل لاء کے خلاف کھڑے ہوئے تھے 2 ججز اُٹھنے سے کوئی تنازعہ موجود نہیں،102 افراد کو ملٹری کے بجائے جوڈیشل حراست میں رکھا جائے۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ ہم نے بھی فل کورٹ کا کہا تھا مگر 2 ججز بنچ چھوڑ گئے اور ایک پر اعتراض کیا گیا۔
درخواست گزار فیصل صدیقی اور زمان وردگ کے علاوہ تمام درخواست گزاروں نے فل کورٹ کی مخالفت کر دی۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے بھی فل کورٹ بنانے کی مخالفت کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر بینچ جلد کسی رائے پر پہنچ گیا تو 15 منٹ میں آگاہ کر دیا جائےگا، اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو کل مقدمے کی سماعت کریں گے۔
عدالت نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعد ازاں فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا۔