ایک نیوز: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے متصل ریاست ہریانہ میں ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 5 افراد ہلاک ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق ہریانہ میں مسجد میں آتشزدگی اور امام مسجد کے قتل کے بعد ہندو مسلم فسادات کا آغاز ہوا،پُرتشدد فسادات اس وقت پھوٹ پڑے جب مسلم اکثریتی علاقے نوح سے ہندو مذہبی ریلی گزر رہی تھی۔نوح پولیس کے ترجمان کریشن کمار کا کہنا ہےکہ ریلی ایک مندر سے دوسرے مندر جارہی تھی لیکن راستے میں دونوں گروہوں میں جھڑپ ہوگئی جس کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک ہوئے۔ہلاک ہونے والے افراد میں 2 گارڈز بھی شامل ہیں جو رضاکارانہ طور پر عوامی فسادات کو قابو میں رکھنے کیلئے پولیس کی مدد کرتے ہیں جبکہ اس جھڑپ میں 10 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
نوح ضلع میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے پیش نظر گروگرام کے ضلع مجسٹریٹ اور ڈی سی نشانت کمار یادو نے قانون نافذ کرنے اور ضلع میں امن برقرار رکھنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے آئندہ احکامات تک دفعہ 144 کے نفاذ اور احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا حکم دیا گیاہے۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ احکامات میں ضلع میں کسی بھی سڑک کو بلاک کرنے اور عوامی جگہ پر پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے، کسی بھی قسم کا لائسنس یافتہ اسلحہ یا آتش گیر اسلحہ، تلوار، گنڈاسا، لاٹھی، نیزہ، کلہاڑی، جیلی، چاقو کے ساتھ اور دوسرے ہتھیار لے جانے پر پابندی ہے۔ حکم عدولی کرنے والوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 188 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
یادرہے وشو ہندو پریشد، ماتری شکتی درگا واہنی اور بجرنگ دل کی طرف سے نکالی گئی برج منڈل 84 کور شوبھا یاترا کے دوران پتھر بازی اور فائرنگ میں دو ہوم گارڈ جوان ہلاک اور متعدد پولیس اہلکار اور تقریباً 24 افراد زخمی ہو گئے۔ یاترا میں شامل لوگوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔
اسی دوران فسادیوں نے آگ لگانا شروع کر دی۔ کئی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ اور آگ لگا دی گئی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد پورے ضلع میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے بدھ تک انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ضلع کی حدود کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت میں ہندوانتہاپسندوں نے مسجد کو آگ لگانے کے بعد امام مسجد کو شہید کردیا جس کے بعد امن برقرار رکھنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔ ہندو انتہا پسند ہجوم نے ریاست ہریانہ کے شہر گرو گرام کے سیکٹر 57 میں واقع مسجد میں آگ لگا دی گئی ہے ۔ہندو انتہا پسندوں نے مسجد کو بچانے کی کوشش کرنے والے امام مسجد سمیت دو افراد پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں امام مسجد شہید ہوگئے۔مسجد کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ تشدد کے اس واقعے میں مسجد کے نائب امام سعد انور کی موت ہو گئی ہے اور یہاں موجود دو دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ڈی سی پی کے مطابق ’جب مسجد پر حملہ ہوا تو وہاں سکیورٹی کے لیے پولیس فورس تعینات تھی لیکن حملہ آوروں کی تعداد زیادہ تھی اور انہوں نے اچانک فائرنگ شروع کردی۔
جس کے بعد گروگرام کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی ہے۔گروگرم کی پولیس نے کہا کہ مسجد کو نذر آتش کرنے والے ملزمان کی شناخت کی جاچکی ہے جبکہ ان میں متعدد کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے، ساتھ ہی علاقے میں موجود مذہبی عبادگاہوں کی سیکیورٹی بھی سخت کردی گئی ہے۔
مقامی افراد کے مطابق پولیس کی جانب سے علاقے میں مساجد کو سکیورٹی بھی فراہم کی گئی تھی تاہم اس کے باوجود رات گئے مساجد پر حملوں کی اطلاعات آتی رہیں۔بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے میوات میں ’جلابھشیک یاترا‘ نکالنے کا اعلان کیا تھا تاہم اس یاترا میں مفرور ملزم مونو مانیسر بھی شریک ہونے والے تھے۔مونو مانیسر اعلانیہ ’گو رکشک‘ ہیں اور وہ دو مسلم نوجوان ناصراور جنید قتل میں مفرور ملزم ہیں۔
ہریانہ کے وزیرِ اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے اپنے ٹوئٹ میں واقعے کی مذمت کی، جہاں انٹرنیٹ بند کرنے اور علاقے میں کرفیو نافذ کرنے کے احکامات بھی دیے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ قصور واروں کو کسی بھی صورت میں چھوڑا نہیں جائے گا اور ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔