ایک نیوز: مشرقی لیبیا میں سیکیورٹی حکام نے کم از کم 385 پاکستانی تارکینِ وطن کو رہا کروالیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تارکینِ وطن کے حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہےکہ سمگلنگ کے ایک وئیر ہاؤس میں رکھے گئے 385 پاکستانی تارکینِ وطن کو رات کے وقت ریڈ کر کے رہا کروایا گیا۔العبریین نامی گروپ جولیبیا میں تارکینِ وطن کی مدد کرتا ہے اس بے سوشل میڈیا سائٹ فیس بک پر بتایا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو لیبیا کے شہر تبروک سے تقریباً 8کلو میٹر جنوب میں الخوئیر کے وئیر ہاؤس سے رہا کروایا گیا ہے۔ ان تارکینِ وطن کے ہمراہ بچے بھی تھے جنہیں ایک قریبی پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیاہے۔
https://www.pnntv.pk/digital_images/large/2023-08-01/news-1690873024-8829.jpg
العبریین کے ایک سرگرم کارکن ایصریوا صلاح کا کہنا ہےکہ پاکستانی تارکینِ وطن یورپ کے ارادے سے لیبیا آئے تھے لیکن انہیں سمگلروں نے پکڑ لیا اور ان کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا۔العبریین کے فیس بک پیج پر کئی تصاویر پوسٹ کی گئی ہیں جن میں دکھایاگیا ہے کہ درجنوں پاکستانی تارکینِ وطن وئیر ہاؤس کے باہر بیٹھے ہیں۔افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کے لیے لیبیا ایک درمیانی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔
https://www.pnntv.pk/digital_images/large/2023-08-01/news-1690873024-8265.jpg
2011 میں حکمران معمر قذافی کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے لیبیا افراتفری کا شکار ہے۔تیل سے مالا مال لیبیا میں گزشتہ ایک عشرے میں مشرقی اور مغربی حصوں میں زیادہ تر متحارب حکومتیں قائم رہی ہیں جن میں سے ہر ایک کو ملیشیاؤں اور غیر ملکی حکومتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔عدم استحکام کا فائدہ انسانی سمگلروں نے اٹھایا اور مصر، الجزائر اور سوڈان سمیت چھ ملکوں کی سرحدوں کے پار تارکینِ وطن کو سمگل کرتے رہے جس کے بعد بہترزندگی کی تلاش میں یورپ جانے کے خواہشمند تارکینِ وطن کو ربڑ کی کمزور کشتیوں اور دیگر ناقص کشتیوں میں بھر کر وسطی بحیرہ روم کے خطرناک سفر پر لے جاتے رہے۔
ایک کشتی جو لیبیا سے چلی جس پر350 پاکستانیوں سمیت 700 تارکینِ وطن سوار تھےاور وہ یونان کے ساحل کے قریب الٹ گئی جس میں سے 12 پاکستانی تارکینِ وطن سمیت صرف 104 افراد کو بچایا جا سکا۔