ایک نیوز:ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہاکہ شکایت کنندہ کے بیانات نہیں سنے، یہ میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوئے، میری موجودگی میں فرد جرم عائد نہیں کی گئی، مجھے فرد جرم پڑھ کر نہیں سنائی گئی۔
تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ فوجداری کیس کی سماعت جج ہمایوں دلاور نے کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل مرزا عاصم بیگ عدالت میں پیش ہوئے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آج احتساب عدالت میں پیش ہونا ہے، عمران خان نے چند کیسز میں شامل تفتیش ہونا ہے۔
وکیل مرزا عاصم بیگ کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان ساڑھے 12 بجے سیشن عدالت میں پیش ہوں گے۔
بعد ازاں جج ہمایوں دلاور نے کیس کی سماعت میں ساڑھے 12 بجے تک وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ میں سوالات سنا رہاہوں، جوابات دینا چاہیں تو دیں، عمران خان کو روسٹرم پر پیش کریں،عدالت سوالات آپ کو پڑھ کر سنائےگی،باقی آپ کی مرضی ہے۔کیا آپ نے شکایت کنندہ کے الزامات پڑھے؟
عمران خان نے کہا کہ میں نے شکایت کنندہ کے بیانات نہیں سنے کیونکہ میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوئے،میری موجودگی میں فردجرم عائد نہیں کیاگیا،مجھے فردجرم پڑھ کر نہیں سنایاگیا،میں نے کسی کو نمائندہ مقررکیاہی نہیں کیس میں،سیشن عدالت نے خود ہی میرا نمائندہ مقرر کردیا،سیشن عدالت نے میرا نمائندہ مقرر کرکے گواہان کے بیانات ریکارڈ کروائے،میں نے نمائندہ مقر رکرنے کی کوئی درخواست عدالت جمع نہیں کروائی،میرے وکلاء نے سیشن عدالت کی جانب سے نمائندہ مقرر کرنے کی مخالفت بھی کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے342 کے بیان قلمبند ہونا شروع ہوگئے۔
عمران خان عدالت کی جانب سےدیےگئےسوالنامےکےجوابات عدالت میں تحریر کروا رہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں ملزم صرف ایک ہے،سیشن عدالت خود سے میرا نمائندہ مقرر نہیں کرسکتی،گواہان کے بیانات قلمبند کرتے وقت فیصلہ جاری نہیں کیاگیا،مجھے گواہان کے بیانات قلمبند کرتے وقت ہر سماعت پر استثنا دیاگیا،سیشن عدالت کے فیصلے کے مطابق میرے مقرر نمائندہ کا موقف ٹھیک طرح نہیں لکھا گیا،میری غیر موجودگی میں گواہان کا بیان ریکارڈ کرنے کا قانون اجازت نہیں دیتا،میری غیر موجودگی میں قلمبند کیاگیا گواہان کا بیان میرے سامنے نہیں پڑھا جاسکتا۔
عمران خان نے کہا کہ عاشورہ کی چھٹیوں کے دوران گواہان کے بیانات مجھے مہیا کیے گئے،17 جولائی کو مجھے گواہان کے بیانات کی کاپی فراہم کی گئی،31 جولائی کو مکمل دن میں عدالت رہا اور گواہان کے بیانات پڑھے،الیکشن کمیشن نے شکایت دائر کرنے کے لیے کسی کو نامزد نہیں کیا،الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر شکایت 120 دنوں کے بعد دائر کی گئی،میں نے 2018-17 کے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے،میں نے 2018-19 کے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے،میں نے 2019-20 کے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے۔میں نے 2020-21 کے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے۔
عمران خان نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا جو بدنیتی پر مبنی تھا،اسپیکر قومی اسمبلی کے بھیجے گئے ریفرنس میں قانون کو غلط طریقہ کار سےسمجھا گیاتھا،مجھ پر ریفرنس میں 2017-18 اور 2018-19 کے اثاثہ جات کا ذکر کیاگیا،الیکشن کمیشن نے اگلے سالوں کے بھی اثاثہ جات تک رسائی حاصل کی جو پی ڈی ایم کی بدنیتی ظاہر کرتی ہے,میں نےدائر جواب میں نہیں کہا کہ 58 ملین روپے نجی بینک میں جمع کروائے،قانون میں نہیں لکھا کہ تحائف کے نام جمع کروائیں جائیں،الیکشن کمیشن کے فارم بی میں تحائف کے نام لکھنے کا کالم موجود ہی نہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ لسٹ بناتے وقت تحائف کی تفصیلات نہیں بنائی گئیں،لسٹ بناتے وقت کسی نے تحائف کی مالیت کی تفصیلات بھی نہیں بنائیں،گواہان نے تحائف کی مالیت کا چالان بھی عدالت میں جمع نہیں کروایا،مجھ سے تحائف کے حوالے سے دستاویزات بناتے وقت رابطہ نہیں کیاگیا،صرف اتنا کہوں گا کہ تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو سوالنامے میں نہیں لکھا جاسکتا،تحائف کے حوالے سے دستاویزات مہیا کرنے والا بطور گواہ عدالت پیش نہیں ہوا،تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو نہ تصدیق کیاگیا نہ اس کی شہادت لی گئی،کسی فرد نے تحائف کے حوالے سے دستاویزات کا بطور گواہ اقرار نہیں کیا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن کمیشن کےفیصلے میں درج تحائف کےحوالےسےدستاویزات کا کبھی مجھ سے پوچھا ہی نہیں گیا،کیبینٹ ڈویژن کی جانب سے کوئی گواہ شکائت کنندہ عدالت میں نہیں لایا، دستاویزات 160 صفحات پر مشتمل ہیں لیکن شکائت کنندہ اس حوالے سےکوئی گواہ سامنے نہیں لایا،شکائت کنندہ نہ کوئی ایسا گواہ سامنے لایا جس کے سامنے تحائف کے حوالے سے دستاویزات تشکیل دیے گئے ہوں،تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو بطور ثبوت عدالت میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری کرنے کے بعد نجی بینک کا ریکارڈ طلب کیا،الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری کرنے سے قبل مجھ سے کبھی نجی بینک کا ریکارڈ طلب کیاہی نہیں،مجھے سے الیکشن کمیشن نے کبھی نجی بینک کے حوالے سے تفصیلات پوچھی ہی نہیں،نجی بینک کا ریکارڈ قانون کے مطابق نہیں مانگا جا سکتا،نجی بینک کے حوالے سے ریکارڈ بنانے والا فرد بطور گواہ عدالت میں پیش نہیں کیاگیا،گواہ نے کہا کہ نجی بینک کا ریکارڈ کمپیوٹر سے نکالا گیا اور بعد میں گواہ نے کہا مجھے معلوم نہیں،بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ میری غیر موجودگی میں الیکشن کمیشن نے طلب کی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری کرنے کے بعد بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ مانگا،بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ لینے اور جمع کروانے والا فرد بطور گواہ پیش نہیں ہوا،مجھ سے 2018-19 میں چار تحائف کا پوچھنا درست نہیں کیونکہ میرے پاس اسی سال یہ تحائف موجود نہیں تھے،شکائت کنندہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ 2018-19 میں 4تحائف میرے پاس ہی تھے یا نہیں۔میں نے 2018-19 میں غلط اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائے.
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 2019-20 میں 3تحائف کا پوچھنا درست نہیں کیونکہ میرے پاس تحائف موجود نہیں تھے،شکائت کنندہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیاکہ 2019-20 میں تینوں تحائف میرے پاس تھے یا نہیں،میں نے 2019-20 میں غلط اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائے،میں نے 2020-21 میں اپنے ظاہر اثاثہ جات میں قیمتی تحائف کا زکر کیا جس کے لیے 11 ملین روپے ادا کیے،میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے قیمتی تحائف کا ذکر الیکشن کمیشن میں دائر اثاثہ جات میں کیا،توشہ خانہ تحائف ذاتی استعمال کے لیے تھے جن کا ذکر میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے دائر اثاثہ جات میں کیا۔
عمران خان نے کہا کہ 2020-21 میں جمع کروائے گئے چالان توشہ خانہ، کیبینٹ ڈویژن اور الیکشن کمیشن میں بھی جمع ہیں،سوچنا عجیب ہے کہ الیکشن کمیشن نے پانچ تحائف پر کیسے اخذ کرلیاکہ میں نے جمع نہیں کروائے،میں نے الیکشن کمیشن میں 2020-21 کے ٹیکس ریٹرن بھی ظاہر کیے،ٹیکس ریٹرن اور اثاثہ جات میں نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے،میرا اکاؤنٹ چالیس سال سے کام کررہا، اسے اثاثہ جات جمع کروانے کے حوالے سے معلوم ہے،یہ بات جھوٹ ہےکہ 2020-21 میں اثاثہ جات کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں غلط بیان ریکارڈ کیاگیا،الیکشن کمیشن میں دائر 2020-21 کا ایک بھی میرا بیان جھوٹا نہیں جس کا الزام شکائت کنندہ نے مجھ پر لگایا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 70 سال کی تاریخ میں الیکشن کمیشن یا نیب نے توشہ خانہ ریکارڈ کبھی مانگا؟مجھ سے تحائف کا کہا گیا اس لیےصرف پوچھا جارہا ہے تاکہ مجھے نااہل کر سکیں؟میرے خلاف فوجداری کی شکایت دائر کی گئی،شکائت کنندہ پر لازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تحائف میرے پاس تھے جو اس نے ثابت نہیں کیے،میں نے تحائف ذاتی طور پر نہیں بیچے،میں نے بریگیڈیئر جمشید چیمہ کے ذریعے تحائف بیچے جن کو عدالت بطور گواہ نوٹس جاری کرسکتی ہے،الیکشن کمیشن نے 2019-20 کے حوالے سے کبھی خریداروں کے نام نہیں پوچھے،الیکشن کمیشن نے آج تک کسی سے توشہ خانہ تحائف کے خریداروں کے نام نہیں پوچھے۔
انہوں نے کہا کہ فوجداری کارروائی میں شکائت کنندہ کو ثابت کرنا ہےکہ تحائف میرے پاس تھے جو میں نے ظاہر نہیں کیے،تحائف پاس ہونے کے باوجود ظاہر نہ کرنے کے الزام پر شکائت کنندہ کے پاس ثبوت نہیں،وصول کردہ تحائف اثاثہ جات میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا کیونکہ سال ختم ہونے سے قبل ان کو اگے تحفے میں دےدیاگیاتھا،تحائف بیچنے کے بعد وصول کردہ رقم اثاثہ نہیں سمجھا جاسکتا، میرا اسسٹنٹ فیصلہ کرتاہےکہ اثاثہ جات کی کون سی تفصیلات مہیا کرنی ہیں یا نہیں،میرے کنسلٹنٹ نے توشہ خانہ کے تحائف کو ایک گروپ کی شکل میں شامل کیاتھا،میں نے توشہ خانہ تحائف اپنے پاس 50فیصد قیمت پر رکھے،پہلے تحائف رکھنے کی قیمت 20فیصد ہوا کرتی تھی جو پی ٹی آئی حکومت نے 50فیصدکردی تھی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ کیبینٹ ڈویژن کو توشہ خانہ تحائف کا بتایا جن کو الیکشن کمیشن میں ظاہرکیاگیاہے،ذاتی استعمال کے لیے تحائف کا ذکر فارم بی میں کہیں نہیں،شکائت کنندہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ گواہ مصدق انور اثاثہ جات کے ریکارڈ کا محافظ ہے،دورانِ جرح گواہ مصدق انور نے اثاثہ جات کا محافظ ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا،توشہ خانہ کیس سیاسی بنیادوں پر بنایاگیاہے،پی ڈی ایم کے کہنے پر میرے خلاف کیس بنایاگیا،دونوں گواہان سرکاری ہیں، جن کو میرے خلاف استعمال کیاگیا،اتھارٹی لیٹر میں شکائت کنندہ کانام ہی نہیں،شکائت کنندہ کو میرے خلاف شکائت دائر کرنے کی ڈائریکشن نہیں دی گئی،گواہ مصدق انور کا عہدہ بھی نہیں لکھا گیا،گواہان کو آخری لمحے پر میرے خلاف بطور گواہ سامنے لایاگیا،گواہان کو میرے خلاف جھوٹا بیان دینے کے لیے لایاگیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ گواہان میرے خلاف جھوٹا بیان دیں،14 ماہ سے پی ڈی ایم مجھے انتخابات سے باہر کرنا چاہتی ہے،توشہ خانہ بشمول 180 دیگر کیسز اور دو قاتلانہ حملے میرے خلاف کروایاگیا،9 مئی واقعات پر 10 ہزار سے زائد میرے کارکنان اور رہنما جیل میں ہیں،دیگر کارکنان اور رہنماؤں کو زبردستی انڈر گراؤنڈ کیاگیا،37 میں سے 30 ضمنی انتخابات تحریک انصاف جیتی،انتخابات میں 75 فیصد ووٹرز تحریک انصاف کا ہے،کم نہیں ہوسکتے،۔میں اپنی طرف سے گواہان کو عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 35 سوالات پر مبنی 342 کا بیان 35 عدالت میں ریکارڈ کررلیاگیا،عدالت نے 35 سوالات کے جوابات کو دوبارہ نظر دوہرانے کی ہدایت کرتے ہوئےسماعت میں وقفہ کردیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کمرہ عدالت میں اپنے وکلاء کے ہمراہ بیٹھ گئے،ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور اپنے چیمبر میں چلے گئے۔
بلاو یار جج صاحب کو، چیئرمین پی ٹی کا اپنے وکلاء سے مکالمہ۔
عمران خان اور ان کی قانونی ٹیم نے 342 کےدیےگئے بیان پر نظرثانی کرلی۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے جو جوابات دیے اس سے مطمئن ہیں؟
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جی میں سوالات کے دئیے گئے اپنے جوابات سے مطمئن ہوں۔
عدالت نے سوال کیا آپ خود بطور گواہ پیش ہونا چاہتے ہیں؟
عمران خان نے کہا کہ استغاثہ میرے خلاف شواہد لانے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔
بیرسٹر گوہر نے عدالت سے استدعا کی کہ گواہان کو پیش کرنا ہے تو تھوڑا سا ٹائم دیا جائے۔
عدالت نے بیرسٹر گوہر سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو نہیں پتہ کہ کیس میں کس کو بلانا ہے؟
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ابھی لسٹ تیار نہیں کی گئی لسٹ تیار کرنی ہے اسی لیے ٹائم چاہیے،متعلقہ گواہان جن کا تعلق بنتا ہے ان کو بلائیں گے،2دن کا ٹائم دیا جائے،3 اگست کا ٹائم دے دیں ہم گوہان کی لسٹ دے دیں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مخالفت کردی گئی۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ گواہان 2 اقسام کے ہیں،ایک سرکاری اور ایک پرائیویٹ گواہ ہوتے ہیں۔
جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیئے کہ کل ایسا کریں کل پرائیویٹ گواہان کی لسٹ فراہم کر دیں۔
جج ہمایوں دلاور نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ رات گئے جاگتے رہےہیں؟ تیری زلف کہہ رہی ہے تیری رات کا یہ حال ہے،جج ہمایوں دلاور کے شعر پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے جج ہمایوں دلاور سےمکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سرہم سب کا ہی آج کل یہ حال ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے ریکارڈ کروائے گئے 342 کے بیان پر دستخط کردیے اور اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت سے روانہ ہوگئے۔
یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو آج صبح نو بجے تک بیان ریکارڈ کرانے کی مہلت دی تھی۔گزشتہ روز جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی کی 342 کا بیان ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کی تھی۔
دوران سماعت عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ انہیں گزشتہ روز ہی 35سوالات فراہم کیے گئے ہیں، وہ سوالات بغور پڑھنے کے بعد ہی بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں۔
جج نے عمران خان کو کہا کہ آپ کی لیگل ٹیم آپ کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے اگر خواجہ حارث چاہیں تو ایک ایک سوال آپ کو بتا اور سمجھا سکتے ہیں۔